مواد کی فراہمی میں کتب خانوں اور مخطوطات کی اہمیت

0

مواد کی فراہمی کے سلسلے میں سب سے پہلے جو بات ذہن نشین کرنی ہوگی وہ یہ ہے کہ کسی زبان کے ادب کا جتنا مواد موجود ہے اس سے کہیں زیادہ ضائع ہوچکا ہے۔کسی ادیب کا مواد مکمل نہیں ہے۔ غالب روزانہ کسی کاغذ پر کچھ لکھتے ہوں گے ان میں سے کتنی چیزیں محفوظ ہیں اور کتنی ضائع ہو چکی ہیں اس کا جاننا ضروری ہے۔ ایک ادیب زندگی میں ہزاروں صفحات سیاہ کرتا ہے لیکن محفوظ کم ہی رہ جاتے ہیں۔

اگر ہم اردو تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایسے ادیبوں یا شاعروں کی تعداد زیادہ ہے جن کے نہ تو پہلے مسودے ہمیں ملتے ہیں اور نہ آخری۔ ان تمام حالات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ادب پر کام کرنا کتنا مشکل ہے۔ آج ہر بڑے شہر میں اردو کے کئی سو شاعر ہیں، ساٹھ ستر سال بعد ان میں سے کتنوں کا کلام محفوظ رہے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ غالب و مومن کے زمانے میں دلی میں سینکڑوں شاعر موجود ہوں گے ان میں سے پچاس کا کلام بھی موجود نہیں۔

  • ادبی مواد کئی قسم کا ہوتا ہے لیکن اصل میں دیکھا جائے تو اس کی تقسیم کے دو بنیادی اصول ہیں۔
  • 1. بنیادی اور ثانوی
  • 2. داخلی اور خارجی

1. بنیادی اور ثانوی کا جہاں تک تعلق ہے یہ ادیب کی جملہ تخلیقات اور دوسری تحریروں مثلاً مسودوں، ڈائری، خطوط وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویز، ملازمت کا ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ وغیرہ بھی بنیادی قسم میں ہی آتے ہیں بقیہ ثانوی مواد کے زمرے میں آتے ہیں۔

2. داخلی مواد کا جہاں تک تعلق ہے یہ کسی مقصد کی نگارشات پر مشتمل ہوتا ہے بقیہ خارجی مواد کے زمرے میں آتا ہے۔

اس کے علاوہ ماخذی مواد کو ذیل کی قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

1. کاغذات: جو کسی ادیب یا شاعر کے گھر سے فراہم ہو سکتے ہیں جو خود اس نے کبھی اپنے ہاتھوں سے لکھا ہو۔ اس میں نہ صرف اصل مسودے ہوتے ہیں بلکہ ترمیم و اصلاح والے کاغذات بھی ہوتے ہیں۔

2. خطوط: ان میں علمی و ادبی معلومات پر بحث ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے ادیبوں کے خطوط محفوظ رکھے گئے ہیں۔

3. کتابیات: یہ مختلف لائبریریوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتب خانوں اور میوزیم وغیرہ سے بھی مل جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 65٪ مواد کتابوں سے اور 30 فیصد مواد رسالوں سے اور باقی پانچ فیصد دوسرے کاغذات سے اخذ کیا جاتا ہے۔ ہر موضوع سے متعلق کہیں نہ کہیں مواد ضرور ہوتا ہے اس لئے مختلف لائبریری اور میوزیم کی قدر و قیمت متعین ہے۔

تحقیق نگار کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے موضوع سے متعلق اس کتاب کو سب سے پہلے دیکھے جس میں زیادہ سے زیادہ مواد موجود ہو۔ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ پرانی کتابوں کے بجائے نئی کتابوں کو اولیت دے۔ ایک نئی کتاب میں اسے زیادہ معلومات حاصل ہو سکتی ہے۔اس کے بعد تحقیق نگار کم اہمیت والی کتابوں کو بھی نظر انداز نہ کرے۔

مقبروں، سادہ قبروں، گنبدوں، دروازوں اور دیواروں پر نصب لوحوں اور نقوش سے بھی کبھی کبھی مفید باتیں معلوم ہوجاتی ہیں۔ اردو کے بعض ادیبوں کی لوح سے ان کی تاریخ وفات معلوم ہوتی ہے۔

ایک ریسرچ سکالر کو چاہیے کہ وہ بعض محققوں سے بھی ملے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اچھا خاصا مواد فراہم کرسکتے ہیں۔ ریسرچ سکالر ان سے مل کر اس ادیب کے بارے میں دریافت کر سکتا ہے جس پر وہ کام کر رہا ہے۔اس ادیب یا شاعر سے ملاقات ضروری ہے جس پر وہ تحقیق کر رہا ہے اس سے بڑی معلومات ملے گی اور اگر کسی موضوع کا مواد فراہم نہیں ہو سکتا تو ایسا موضوع نہیں لینا چاہیے۔

محقق کو اپنی تحقیق کے دوران مختلف جامعات میں جاکر وہاں کی لائبریریوں سے استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی بہت سی مفید لائبریریاں موجود ہیں جن میں اردو ادب سے متعلق ہزاروں لاکھوں کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ایک اسکالر کو کتابوں سے محبت ہونی چاہیے اور اسے چاہئے کہ اپنے مطالعہ کے لئے معیاری کتابوں کو منتخب کرکے پڑھے۔