الٹے وہ شکوے وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

0

غزل

الٹے وہ شکوے وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں
سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ
تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش،یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ
وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلکشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ
یا رب! وصال یار میں کیوں کر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہرادا کے ساتھ
اﷲ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ

تشریح

پہلا شعر

الٹے وہ شکوے وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ محبوب ظلم و ستم کرتا ہے۔ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم شکوہ کریں کہ تم ہم پر ظلم کرتے ہو۔ لیکن اس کے برعکس وہ ہم سے شکوے کرتا ہے اور اپنے ستم کے عزر میں الٹا ہمیں کو بے طاقتی کے طعنے دیتا ہے کہ تم اتنا بھی رنج و الم سہنے کی تاب نہیں رکھتے ہو۔

دوسرا شعر

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ محبوب ہماری مزاج پرسی کے لئے آئے لیکن اس طرح آئے کہ قضا کو بھی ساتھ لیتے آئے کہ اس کی آواز جیسے ہی میرے کانوں میں پڑیٗ مارے خوشی کے میرا دم ہی نکل گیا۔

چوتھا شعر

تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش،یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ ہم اپنے محبوب کے اس وعدے سے بہت مسرت تھے خوش تھے کہ وہ پھر آئے گا۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری تو زندگی ہی اس بے وفا محبوب کے ساتھ ہے کہ یہ مسرت افزا وعدے کرکے وہ جیسے ہی گیا ہماری زندگی بھی چلی گئی۔

پانچواں شعر

وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلکشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ شاید وہ پھول جیسا چہرہ رکھنے والا محبوب باغ میں سیر کے لیے گیا ہے کہ خوشبو کے ساتھ ساتھ ہوا میں اس کی پیشانی اور پاؤں لگی مہندی کا رنگ بھی شامل ہوگیا۔

چھٹا شعر

یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ جب گُلوں کی خوشبو لیے چمن سے ہوا آتی ہے تو اس دل میں کیسے کیسے طوفان برپا کر دیتی ہے۔ محبوب کی خواہش ٗ جو کبھی تھی ٗ یاد آ جاتی ہے اور اس کے دل کو تڑپا جاتی ہے۔ دراصل جب بہار آتی ہے تو عشق کی دیوانگی میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاعر نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ساتواں شعر

مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اب سے ہم محبوب سے جٗدائی کی دعا مانگا کریں گے اور وہ اس لئے کہ ہماری دعا الٹا اثر رکھتی ہے۔ گویا اثر کو ہماری دعا کے ساتھ دشمنی ہے۔ اس لئے جو دعا ہم مانگیں گے اس کا الٹا اثر ہوگا اور ہم اگر ہجر کی دعا مانگیں گے تو وصل ہوگا۔