Advertisement
Advertisement

غزل

الٹے وہ شکوے وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں
سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ
تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش،یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ
وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلکشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ
یا رب! وصال یار میں کیوں کر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہرادا کے ساتھ
اﷲ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ

تشریح

پہلا شعر

الٹے وہ شکوے وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ محبوب ظلم و ستم کرتا ہے۔ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم شکوہ کریں کہ تم ہم پر ظلم کرتے ہو۔ لیکن اس کے برعکس وہ ہم سے شکوے کرتا ہے اور اپنے ستم کے عزر میں الٹا ہمیں کو بے طاقتی کے طعنے دیتا ہے کہ تم اتنا بھی رنج و الم سہنے کی تاب نہیں رکھتے ہو۔

Advertisement

دوسرا شعر

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ محبوب ہماری مزاج پرسی کے لئے آئے لیکن اس طرح آئے کہ قضا کو بھی ساتھ لیتے آئے کہ اس کی آواز جیسے ہی میرے کانوں میں پڑیٗ مارے خوشی کے میرا دم ہی نکل گیا۔

چوتھا شعر

تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش،یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ ہم اپنے محبوب کے اس وعدے سے بہت مسرت تھے خوش تھے کہ وہ پھر آئے گا۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری تو زندگی ہی اس بے وفا محبوب کے ساتھ ہے کہ یہ مسرت افزا وعدے کرکے وہ جیسے ہی گیا ہماری زندگی بھی چلی گئی۔

Advertisement

پانچواں شعر

وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلکشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ شاید وہ پھول جیسا چہرہ رکھنے والا محبوب باغ میں سیر کے لیے گیا ہے کہ خوشبو کے ساتھ ساتھ ہوا میں اس کی پیشانی اور پاؤں لگی مہندی کا رنگ بھی شامل ہوگیا۔

Advertisement

چھٹا شعر

یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گل کھلائے
آئی چمن سے نکہت گل جب صبا کے ساتھ

شاعر کہتا ہے کہ جب گُلوں کی خوشبو لیے چمن سے ہوا آتی ہے تو اس دل میں کیسے کیسے طوفان برپا کر دیتی ہے۔ محبوب کی خواہش ٗ جو کبھی تھی ٗ یاد آ جاتی ہے اور اس کے دل کو تڑپا جاتی ہے۔ دراصل جب بہار آتی ہے تو عشق کی دیوانگی میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاعر نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ساتواں شعر

مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اب سے ہم محبوب سے جٗدائی کی دعا مانگا کریں گے اور وہ اس لئے کہ ہماری دعا الٹا اثر رکھتی ہے۔ گویا اثر کو ہماری دعا کے ساتھ دشمنی ہے۔ اس لئے جو دعا ہم مانگیں گے اس کا الٹا اثر ہوگا اور ہم اگر ہجر کی دعا مانگیں گے تو وصل ہوگا۔

Advertisement

Advertisement