مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے

0

غزل

مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے
فراق یار میں دل پر نہیں معلوم کیا گزری
جو اشک آنکھوں میں آتا ہے سو بیتابانہ آتا ہے
تماشا گاہ ہستی میں عدم کا دھیان ہے کس کو
کسے اس انجمن میں یاد خلوت خانہ آتا ہے
زیارت ہوگی کعبہ کی یہی تعبیر ہے اس کی
کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے
عتاب و لطف جو فرماؤ ہر صورت سے راضی ہیں
شکایت سے نہیں واقف ہمیں شکرانہ آتا ہے
خُدا کا گھر ہے، بُت خانہ ہمارا دل نہیں آتش
مقامِ آشانہ ہے،یاں نہیں بیگانہ آتا ہے

تشریح

پہلا شعر

مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے

شاعر کہتا ہے کہ شاید اس کی یعنی محبوب کی ہستی بھری نرگسی آنکھوں کو فریب دینا آتا ہے کہ جب وہ پیمانہ یعنی آنکھیں گردش میں آتی ہیں تو صفیں کی صفیں دگرگوں ہوتی جاتی ہیں۔

دوسرا شعر

خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے

شاعر کہتا ہے کہ کس کا جی چاہتا ہے کہ وہ بدنامی مول لے۔ خوشی سے کوئی رُسوائی گوارا نہیں کرتا ہے۔لہذا اگر دیوانہ گربیاں چاک کرتا ہے تو یوں ہی نہیں کرتا ہے بلکہ تنگ آمد بہ جنگ آمد والی بات ہوتی ہے۔وہ سخت تنگ ہونے پر ہی اپنا دامن پھاڑتا ہے۔

تیسرا شعر

فراق یار میں دل پر نہیں معلوم کیا گزری
جو اشک آنکھوں میں آتا ہے سو بیتابانہ آتا ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جُدائی میں اس دل پر جانے کیا کیا گزر گیا ہے کہ آنکھوں میں جو آنسو آتا ہے بے تابانہ آرہا ہے۔ گویا بہت جلد اور بے قراری کی کیفیت لیے آتا ہے۔

چوتھا شعر

تماشا گاہ ہستی میں عدم کا دھیان ہے کس کو
کسے اس انجمن میں یاد خلوت خانہ آتا ہے

شاعر کہتا ہے کہ کائنات کی اس تماشا گاہ میں کسی کو عاقبت سنوارنے کا خیال نہیں آتا۔ عدم کی طرف دھیان کسی کا نہیں جاتا۔اور کیسے جائے کیونکہ یہ دنیا پررونق انجمن کی طرح ہے اور اس انجمن میں عدم، اُس بے رونق مقامِ تنہا کی یاد کیوں کر آسکتی ہے۔

پانچواں شعر

زیارت ہوگی کعبہ کی یہی تعبیر ہے اس کی
کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے

خواب کی تعبیر اکثر اُلٹ ہوتی ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ چوں کہ کئی دِنوں سے ہمارے خواب میں بُت خانہ آرہا ہے لہذا اس کے برعکس تعبیر ہوگی اور ہمیں کعبے کی زیارت نصیب ہوگی۔

چھٹا شعر

عتاب و لطف جو فرماؤ ہر صورت سے راضی ہیں
شکایت سے نہیں واقف ہمیں شکرانہ آتا ہے

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تم ہم پر قہر کرو کہ کرم کرو،ہمیں منظُور ہوگا۔ہم شکایت نہیں کریں گے کہ ہم شکایت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ہم ہر حال میں شکر گزار ہوں گے۔

ساتواں شعر

خُدا کا گھر ہے، بُت خانہ ہمارا دل نہیں آتش
مقامِ آشانہ ہے،یاں نہیں بیگانہ آتا ہے

آتشؔ کہتے ہیں کہ ہمارا دل خُدا کا گھر ہے۔اس میں خُدا مکیں ہے۔اس میں بُتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔گویا یہ بُت خانہ نہیں ہے۔یہ اس کے مقام سے واقف ہے۔اس میں کوئی غیر نہیں آ سکتا۔