میرے اشکوں کی محفل سجی رات بھر

0
میرے اشکوں کی محفل سجی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آج گھر سے اجالا نہیں جائے گا
آج ٹھہری گی گھر میں پری رات بھر
دن میں کیوں ڈھونڈتا ہے مرے درد کو
پاس میرے ٹھہر تو کبھی رات بھر
رات وہ اپنی چھت پر ٹہلتا رہا
حسن پاتی رہی چاندنی رات بھر
تیری یادوں کی بارات سجتی ہے روز
اب میں رہتا نہیں ہوں فری رات بھر
اس کی تصویر آنکھوں میں چبھتی رہی
نیند کرتی رہی خود کشی رات بھر
کاش رب کی عبادت بھی کرتے رہیں
جیسے کرتے ہیں ہم شاعری رات بھر
جب غریبوں کے بچے ہی بھوکے رہے
بانٹتا کیا رہا پھر سخی رات بھر
میرے کرتے میں بس ایک دو چھید تھے
اور ماں اس کو سیتی رہی رات بھر
جب کبھی بھی طبیعت بگڑتی مری
ماں مری فکر میں جاگتی رات بھر
جب بھی فیضان ہوتا ہے وہ پاس تو
پاس رکھتا نہیں میں گھڑی رات بھر