Advertisement
Advertisement
میرے اشکوں کی محفل سجی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آج گھر سے اجالا نہیں جائے گا
آج ٹھہری گی گھر میں پری رات بھر
دن میں کیوں ڈھونڈتا ہے مرے درد کو
پاس میرے ٹھہر تو کبھی رات بھر
رات وہ اپنی چھت پر ٹہلتا رہا
حسن پاتی رہی چاندنی رات بھر
تیری یادوں کی بارات سجتی ہے روز
اب میں رہتا نہیں ہوں فری رات بھر
اس کی تصویر آنکھوں میں چبھتی رہی
نیند کرتی رہی خود کشی رات بھر
کاش رب کی عبادت بھی کرتے رہیں
جیسے کرتے ہیں ہم شاعری رات بھر
جب غریبوں کے بچے ہی بھوکے رہے
بانٹتا کیا رہا پھر سخی رات بھر
میرے کرتے میں بس ایک دو چھید تھے
اور ماں اس کو سیتی رہی رات بھر
جب کبھی بھی طبیعت بگڑتی مری
ماں مری فکر میں جاگتی رات بھر
جب بھی فیضان ہوتا ہے وہ پاس تو
پاس رکھتا نہیں میں گھڑی رات بھر

Advertisement
Advertisement