غزلیات میر غلام رسول نازکیؔ

0

میر غلام رسول نازکیؔ کی حالات زندگی اور ادبی خدمات پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میر غلام رسول نازکیؔ کی غزلوں کی تشریح

غزل نمبر 1

محبوب کے ہونٹوں پر سیلاب تبسم ہے
یا نورکے دریا کی موجوں میں تلاطم ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ محبوب کی مسکراہٹ سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نور کے دریا میں موجیں اٹھ رہی ہیں یعنی شاعر محبوب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کو نور کے دریا کی موجوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

اب خوب گزرتی ہے انجام خدا جانے
ہر سانس میں نغمہ ہے ہر لَے میں ترنم ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ زندگی آجکل خوب اچھی طرح گزر رہی ہے۔ لیکن آگے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ یعنی نہ جانے آگے کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دل ٹوٹ کے مقابل ہے آلام ومصائب سے
گویا کہ چٹانوں سے لہروں کا تصادم ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ دل پوری طاقت سے مصیبتوں اور مشکلات کا مقابلہ کر رہا ہے اسی طرح جس طرح چٹان لہروں سے مقابلہ کرتی ہے۔

دنیائے محبت کی ہر چیز نرالی ہے
خاموش اشاروں پر بنیاد تکلم ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ محبت کی دنیا کی ہر ایک چیز نرالی ہے یعنی انوکھی ہے۔ یہا ں عاشق اور معشوق اشاروں ہی اشاروں میں بات کرتے ہیں۔

جب جنت ارضی میں آرام نہیں ملتا
پھر خلد بریں کیا ہے؟ واعظ کا وہم ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جب انسان کو زمین پر خاص کر جنتِ کشمیر میں آرام میسر نہ ہوگا تو جنت میں بھی آرام کہاں نصیب ہوگا پھر تو یہ صرف واعظ کا وہم ہے۔

غزل نمبر 2

اس شوخ کو کیا دیکھا آنکھوں میں سمٹ آئی
شیراز کی شادابی کشمیر کی رعنائی

اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اپنے محبوب کو دیکھا اس کو شیراز (یعنی ایران کا ایک شہر) کی شادابی اور کشمیر کی خوبصورتی یاد آئی۔ یعنی انہوں نے اس میں اپنے محبوب کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے کہ وہ کتنا حسین و جمیل ہے۔

رہ رہ کے میرے دل میں اک دور سے اٹھتا ہے
آ اپنے لبوں سے دے پیغام مسیحائی

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جب سے میں عشق میں گرفتار ہوا ہوں میرے دل میں ایک درد اٹھتا ہے اب تم ہی ایک مسیحا بن کر آؤ اور میری زندگی کا پیغام دے جاؤ۔

ہر شئے کی حضوری میں جھکوا دیا سر میرا
اے ذوق جبیں سائی ! اے لزت رسوائی

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ محبت نے مجھے بہت بےعزتی کروائی۔ یعنی کہ عشق نے بہت رسوا کیا لیکن اتنی رسوائی سہنے کے بعد اس روز رسوائی میں ایک الگ ہی میٹھا پن اور ایک الگ ہی لذت محسوس ہوتی ہے۔

شرمندہ الفت ہوں رسوائے محبت ہوں
دامن میں چھپا مجھے اے گوشہ تنہائی

اس شعر میں شاعر نے اپنی رسوائی کے بارے میں بتایا ہے کہ میں محبت کی عشق میں پورا نہ اتر سکا۔ اس لئے شرمندہ ہوں اور اس محبت میں بہت رسوا ہو چکا ہوں۔

سوکھا ہوا سبزہ ہوں گلزار محبت کا
کب سایہ فگن ہوگا وہ سرو دلارائی

یہ اس غزل کا مقطع ہے اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں گلزار محبت کا سوکھا ہوا گھاس ہوں کیوں کہ محبت ایک تیز دھوپ کی مانند ہے جس نے سکھا دیا۔ اب صرف محبت کےسرو ہی مجھے اس سے بچا سکتی ہیں۔

اس نظم کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔