ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے

0

غزل

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے
تاب نظارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹِھکا نہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے،کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
کرکے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ہم نکالیں گے سن اے موج ہوا بل تیرا
ان کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں
چارہ فرما بھی کبھی قیدئ زنداں ہوں گے
منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے
چاک پردہ سے یہ غمزدے ہیں تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گر بیاں ہوں گے
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

تشریح

پہلا شعر

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی آنکھیں جو تیر چلانے کےزبردست انداز رکھتی ہیں جس طرف کو اٹھ جائیں گی اس طرف کی خیر ممکن نہیں ہے۔نہ جانے کتنوں کو یہ گھائل کر دیں گی اور نہ جانے کتنے ہی لوگ نظریں چار ہونے سے بے جان ہو جائیں گے یعنی مر جائیں گے۔

دوسرا شعر

تاب نظارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے

شاعر کہتا ہےکہ محبوب کا نظارہ کرنے کی کس کو تاب ہے گویا کسی میں حوصلہ نہیں ہے۔ خود محبوب اپنے جلوے کا نظارہ کرنے کی تاب نہیں رکھتا جب یہ عالم ہے تو ہم محبوب کو آئینہ کیوں کر دیکھنے دیں۔سرائیکی بولی تیری سکھڑی کہ اگر وہ آئینے میں اپنا جلوہ دیکھے گا تو جو پہلے ہی تصویر ہے مزید حیران ہو کر اور تصویر ہو جائے گا۔

تیسرا شعر

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹِھکا نہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

شاعر شب ہجر سے مخاطب ہے۔کہتا ہے کہ صبح فجر ہم تجھے بہت عزیز رکھتے ہیں۔لیکن اب ہم کب تک رہیں گے کل کو جب ہم نہیں ہوں گے تو توٗ کہاں جائے گی۔ تیرا کون آسرا ہو گا لہذا تو ا اپنا بندوبست کر لے۔

چوتھا شعر

ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے،کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

شاعر کہتا ہے کہ آئندہ سر تو ہمیں نصیحت کیے جا رہے ہے، درست۔لیکن اتنا تو ملاحظہ فرما۔کم از کم یہ تو اپنے دل میں بچار۔یعنی اتنا تو تجھے سمجھنا چاہیے کہ ہم لاک نا سمجھ صحیح تجھ سے تو ناداں نہیں ہیں کہ ہمیں تیری نصحیت کی ضرورت ہو۔

پانچواں شعر

کرکے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے

شاعر کہتا ہے کہ وہ ہمیں مجروح کرکے شرمندہ ہوں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔محبوب کبھی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہوتا۔اگر خدا نخواستہ وہ نادم ہوئے بھی تو بے وقت ہوں گے کہ جب تک ہمارا کام تمام ہو چکا ہوگا۔غالب نے ایک جگہ کہا ہے؂

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے ! اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا