نبی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے خصائل و شمائل

0
  • سبق نمبر 19:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ خصائل و شمائل نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اہمیت و فضیلت پر نوٹ لکھیں۔

جواب: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی پاکیزہ زندگی ہی اسلام کی صحیح اور کامل تصویر ہے۔ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے اقوال و افعال اور حیات مبارکہ کا اتباہ ہی مومن کے لیے نجات دہندہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مسلمانو!) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکرم نبیک ریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی عمدہ عادات اور بے مثال سیرت کو اس امت کے لیے ایک بہترین ”اسوۂ حسنہ“ قرار فرما کر اس کے مطابق زندگی گذارنے کی ترغیب دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو عمدہ صورت کی طرح اعلیٰ سیرت، بلند، اخلاق اور عمدہ صفات کا مجموعہ بنایا رتھا، جس کی گواہی خود قرآن کریم نے بھی دی ہے: یقیناً آپ کے اخلاق بڑے اعلیٰ ہیں۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ذات اقدس سیرت اور صورت دونوں اعتبار سے کامل اوراکمل تھیں، اپنی قوم میں اچھے کردار، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز تھے اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی شخصیت نہایت بار عب اور پروقار تھی، سب سے زیادہ بامروت، سب سے زیادہ خوش اخلاق، سب سے زیادہ راست گو، سب سے زیادہ کریم، سب سے زیادہ نیک عمل، سب سے بڑھ کر پابند عہد، سب سے زیادہ امانت دار تھے۔

پس جو اشخاص اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگانی خوبصورت اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو انھیں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے خصائل و شائل کی طبیعت کی پوری آمادگی اور ایک قلبی لگاؤ کے ساتھ پیروی کرنی چاہیے۔ اس کو معلوم ہو کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ جو کوئی حکم اپنی زبان مبارک سے واضح الفاظ میں دے رہے ہیں۔ یا یہ کہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند۔ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی نشست و برخواست کا طریقہ کیا ہے۔ گفتگو کا انداز کیا ہے۔ چلتے کس طرح تھے، لباس کون سا پہنتے تھے،کھانے میں کیا چیز مرغوب تھی۔ یہ سب جان کر مومن ان کی اتباع کر سکے اور نجات دارین حاصل کرسکے۔

۲۔ دوسروں کے کام آنے میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا کیا طریقہ تھا؟

جواب: ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے مخاطب ہو کر فرماتی ہیں کہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، خالی ہاتھ والوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب میں مدد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔(صحیح بخاری)

یہ تمام خوبیاں پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ہمدردی اور خیر خواہانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں معاشرہ میں کمزور سمجھے جانے والے نادارطبقہ سے بھی ایسا سلوک روارکھے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے جو کسی شاہانہ طرز رکھنے والے سے رکھا جائے۔

اسی طرح مظلوموں اور بے کسوں کی فریاد سننا اور ان کے کام آنا حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ چنانچہ ایک اجنبی حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے پاس آکر التجا کرنے لگا کہ ابوجہل کے ذمہ میرا قرض ہے وہ ادا نہیں کر رہا ہے اس وقت آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّم حرم مکہ میں عبادت کررہے تھے لیکن عبادت کو مؤخرکیا اور اپنے ذاتی دشمن ابوجہل کے پاس ایک اجنبی کی مدد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس سے حق و صول کروادیا۔

اسلامی شریعت میں حقوق العباد کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ قرآن کریم جیسی مبارک کتاب کی تلاوت کرنے والے کو بھی اتنی آواز سے تلاوت کرنے کی تاکید ہے جس سے کسی دوسرے کو تکلیف اور پریشانی نہ ہو چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی قرأت یوں تھی کہ کبھی بلند پڑھتے کبھی پست۔

رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والے ہو، اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشیکا داخل کرو، یا اسکی تکلیف و پریشانی کودور کرو، یا اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام کرو، یااس کی بھوک کو ختم کرو، اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے (چند قدم) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں۔ مسلمان بھائی کی معاونت پر اجروثواب کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:

جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے بچائیں گے، اور
جو کسی مسلمان محتاج پر (معاملہ میں) آسانی کرے گااللہ تعالیٰ اس پر دنیا وآخرت کی آسانی کریں گے،
جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کریں گے۔
جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے رہیں گے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ خصائل اور شمائل نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سےکیا مراد ہے؟

جواب: خصائل و شمائل کے معنی اور مفہوم:

خصائل عربی کے لفظ خصلۃ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی عادات ہے۔ جبکہ شمائل شمیلۃ کی جمع ہے، جس کے معنی اچھی طبیعت، عمدہ عادت اور نیک صفت و خصلت کے ہیں۔ خصائل اور شمائل نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے مراد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ظاہری خوبیاں وباطنی خصائل اور عمدہ عادات، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی شب و روز کی زندگی جیسے اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، مزاج، معاشرت اور لباس، اخلاق، پاکیزہ خصوصیات اور خوبیاں واوصاف بالخصوص آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا اہل خانہ سے برتاؤ، لوگوں سے میل جول، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ساتھیوں سے رویہ، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ظاہری صورت اور سیرت، حلیہ مبارک اور جسمانی بناوٹ مراد ہیں۔

۲۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی گھریلو مصروفیات کیا تھیں؟

جواب: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی گھریلو مصروفیات:

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی گھریلو زندگی نہایت شائستگی اور خوشگوار نوعیت کی تھی، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ، اپنے کام خود سر انجام دیتے اور اہل خانہ سے کبھی بھی سختی سے پیش نہیں آئے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہل خانہ کے معاملہ میں تم سب سے بہتر ہوں۔ (سنن ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنے اہل و عیال کے لیے شفیق اور مہربان ہو۔

۳۔ رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی اہل محلہ سے کیسا رویہ رکھنے کا درس دیتی ہے؟

جواب: حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا محلے کے لوگوں سے برتاؤ

حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی نہ صرف انفرادی حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار اپنانے میں رہنمائی کرتی ہے، بلکہ معاشرے کی بہتر سے بہتر طور پر تشکیل اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے خاندان، محلہ اور پڑوس کے ساتھ حسن سلوک پر بھی زور دیتی ہے۔

چنانچہ معاشرتی معاملات میں رشتہ داروں، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، ان کو تحفہ تحائف بھیجنا طبع پرسی کرنا، ایک دوسرے کو دعوت دینا، معاشرت کے نادار لوگوں کے کام آنا، دشمنوں سے بھی نیکی کرنا وغیرہ خصائل مبارک میں سے تھے اور رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اپنی تعلیمات میں ان چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ہمسایے کو تکلیف دینا ایمان کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا ہے، فرمان نبویصَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہے:
ترجمہ: جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شرور سے محفوظ نہ ہو۔