نظم آب زلال کی تشریح

0

شاعر اور نظم کا حوالہ: یہ اشعار “آبِ زُلال” سے لیے گئے ہیں۔ اس نظم کے شاعر اسمٰعیل میرٹھی ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے پانی کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔

دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی،
جو دانا ہو تو سمجھو کیا ہے پانی،
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے،
گرہ کھل جائے تو فورا ہوا ہے،
نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے،
زبان چکھے مزہ ہر گز نہ آئے،
ہواؤں میں لگایا خوب پھندا،
انوکھا ہے تیری قدرت کا دھندا،
نہیں مشکل اگر تیری رضا ہو،
ہوا پانی ہو اور پانی ہوا ہو!

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ اپنی طبیعت کی روانی دکھاؤ اور عقل مند ہی سمجھ سکتا ہے کہ پانی کیا ہے۔ دراصل پانی دو گیسوں ہائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا ہے اگر دونوں گیسیس الگ الگ ہو جائے تو پھر پانی غائب ہو جائے اور پانی کو تلاش کرنے پر بھی وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں آئے گا۔ اس کا ذائقہ بدل جائے گا، یہ قدرت کا ہی کرشمہ ہے کہ دو گیسوں کو ملا کر پانی بنا دیا۔ خدا کے لیے کچھ بھی مشکل کام نہیں وہ چاہے تو ہوا کو پانی اور پانی کو ہوا بنا سکتا ہے۔ وہی مختار کل ہے، جو چاہے کر سکتا ہے۔

مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا،
جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا،
نہیں کرتا جگہ کی کچھ شکایت،
طبیعت میں رسائی ہے نہایت،
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ،
ہر اک سانچہ میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ،
نہ ہو صدمہ سے ہر گز ریزہ ریزہ،
نہ ہو زخمی اگر لگ جائے نیزہ،
نہ اس کو تیر سے تلوار سے خوف،
نہ اس کو توپ کی بھرمار سے خوف!

تشریح:

اسماعیل میرٹھی کہتے ہیں کہ خدا نے پانی کو نازک مزاج بنایا ہے۔ جیسی جگہ ہوتی ہے ویسا ہی روپ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی کسی جگہ کی شکایت نہیں نہیں کرتا۔ جنگل ہو پہاڑ ہو، میدان ہو یا ریگستان، پانی ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ پانی کا رستہ کوئی نہیں روک سکتا وہ اپنا رستہ خود بنا لیتا ہے۔ اسے جس برتن میں ڈالو اس میں سما جاتا ہے۔ اور اس کو اس کا کوئی صدمہ نہیں پہنچتا، پانی پر تیر مارنے سے وہ زخمی نہیں ہوتا، پانی کو تیر، تلوار اور توپ کسی سے کوئی خطرہ نہیں وہ ہمیشہ صحیح سالم رہتا ہے۔ مراد یہ کہ پانی رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

تواضع سے سدا پستی میں بہنا،
جفا سہنا مگر ہموار رہنا،
نہیں ہے سرکشی سے کچھ سروکار،
نہ دیکھو گے کبھی تم اس کا انبار،
خزانہ گر بلندی پر نہ ہوتا،
تو فوارہ سے وہ باہر نہ ہوتا،
جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھائے،
جو بھاری ہو اسے غوطا کھلائے،
نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے نہ سڑتا،
نرا پانی نہیں ہر گز بگڑتا!

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ پانی ہمیشہ پستی کی طرف بہتا ہے، وہ جفا برداشت کر کے بھی مسلسل بہتا رہتا ہے۔ پانی کسی سے بغاوت نہیں کرتا ہے۔ بہتے ہوئے پانی کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں رکتا ہے۔ فوارے کو دیکھیے اس میں سے کس طرح پانی نکلتا رہتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر پانی کا خزانہ بلندی پر نہ ہوتا تو فوارے سے اس طرح پانی باہر نہ آتا۔ یہ پانی بھی عجیب رنگ دکھاتا ہے۔ جو اس سے ہلکا ہوتا اسے بہا کر لے جاتا ہے۔ اور جو بھاری ہوتا ہے، اسے غوطے کھلا کر نیچے لے جاتا ہے۔ پانی کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ تو گلتا ہے نہ سڑتا ہے اور جس پانی میں روانی ہو یعنی آبِ زوال ہو وہ کبھی خراب نہیں ہوتا۔

کسی عنوان سے ہو گا نہ نابود،
وہی پانی کا پانی دودھ کا دودھ،
لگے گرمی تو اڑجائے ہوا پر،
پڑے سردی تو بن جاتا ہے پتھر،
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے،
کبھی اوپر سے بادل بن کر برسے،
ہوا پر چڑھ کے پہونچے سیکڑوں کوس،
کبھی اولا کبھی پالا کبھی اوس،
کہر ہے بھاپ ہے پانی ہے یا برف،
کئی صیغوں میں ہے ایک اصل کی صرف!

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ کسی بھی طرح سے پانی کا وجود ختم نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے یہ مشہور ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی یعنی دودھ میں پانی ملایا جائے تو پانی صاف نظر آ جاتا ہے۔ اگر گرمی ہو تو یہ بھاپ بن کر غائب ہو جاتا ہے اور سردی ہو تو برف بن جاتا ہے۔ ہوا میں مل کر یہ بادل بن جاتا ہے اور ہوا کے ساتھ یہ سینکڑوں کوس دور چلا جاتا ہے۔ یہ پانی کبھی اولے کی شکل میں زمین پر گرتا ہے تو کبھی اوس کی قطروں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ پانی کی اس شکل کو ہم کہرا کہیں سکتے ہیں۔ بھاپ کہیں یا برف کہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پانی ہی ہے۔

اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے،
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے،
پھلوں میں پھول میں ہر پنکھڑی میں،
ہر اک ٹہنی میں ہر جڑی بوٹی میں،
ہر اک ریشہ میں ہے اس کی رسائی،
غذا ہے جڑ سے کونپل تک چڑھائی،
پھلوں کا ہے اسی سے تازہ چہرہ،
اسی کے سر پے ہے پھولوں کا سہرہ،
اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انسان،
اسی سے تازہ دم ہیں سارے حیوان!

تشریح:

شاعر پانی کی اہمیت بتاتے ہیں کہ پانی کی بدولت دنیا تراوٹ اور نمی باقی ہے۔ پانی کی بدولت کسانوں کی کھیتی ہری بھری ہوتی ہے۔ پھل، پھول، ٹہنی، جڑی، بوٹی غرض کہ ہر ایک ریشے میں پانی پہنچتا ہے اور انہیں تازگی بخشتا ہے۔ پانی ہی کی وجہ سے پھولوں کا چہرہ تازہ اور کھلا رہتا ہے۔ پانی ہی کی بدولت پھولوں میں رونق برقرار رہتی ہے۔ انسانوں کے لیے بھی پانی ضروری ہے، بغیر پانی کے انسان زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور اسی طرح سے سارے حیوان بھی پانی سے تازہ دم رہتے ہیں۔

یہی معدے کو پہنچاتا رسد ہے،
یہی تحلیل میں کرتا مدد ہے،
عمارت کا بسایا اس نے کھیڑا،
تجارت کا کیا ہے پار پار بیڑا،
زراعت اس کی موروثی اثامی،
صناعت کے بھی اوزاروں کا حامی،
کہیں ساگر کہیں کھاڑی کہیں جھیل،
کہیں جمنا کہیں گنگا کہیں نیل!

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے معدے میں غذا پانی کے ذریعے ہی پہنچتا ہے یہی چیزوں کے پیدا ہونے میں مدد کرتا ہے۔ مکان بنانے کے لیے جتنی بھی چیزیں ہوتی ہیں مثلاً ریت، پتھر، چونا، سمنٹ سب میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر پانی کے یہ کام نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی مکان بنایا جا سکتا ہے۔ پانی کے جہاز ست تاجروں کو بڑا فائدہ پہنچتا ہے۔ کسانو کے لیے بھی پانی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ پانی سے ہی فصلیں ہری بھری ہوتی ہے۔ صنت و حرفت کے سازوں سامان کے لیے بھی پانی ضروری ہے۔ یہی پانی سمندر، جھیل، کھاڑی، ندی، کنویں، تالاب، نہر، میں نظر اتا ہے۔ یہی پانی گنگا، جمنا، نیل میں پایا جاتا ہے۔ یعنی اس پانی کو جس رنگ میں ڈالا جائے یہ ویسا ہی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔

یہی پہلے زمین پر موجزن تھا،
نہ میدان تھا نہ پربت تھا نہ بن تھا،
زمین سب غرق تھی پانی کے اندر،
جدھر دیکھو سمندر ہی سمندر،
زمین پوشیدہ تھی اسکی بغل میں،
نہ تھا کچھ فرق جل میں اور تھل میں،
نہ بستی تھی نہ ٹاپو تھا کہیں پر،
اسی کا دور دورہ تھا زمین پر،
نہ افریقہ نہ امریکہ نہ یورپ،
رہی تھی ایشیا او شنییا چھپ،
ہمالہ نے بھی تھی ڈبکی لگائی،
نہ دیتی تھی کہیں چوٹی دکھائی،
مگر دنیا میں یکسانی کہاں ہے،
جواب دیکھو تو وہ پانی کہاں ہے،
یہاں ہر چیز ہے کروٹ بدلتی،
ہر ایک حالت ہے چڑھتی اور ڈھلتی،
کوئی شے ہو ہوا ہو یا ہو پانی،
سبھی کو ہے بڑھاپا اور جوانی!

تشریح:

شاعر کہتا ہے کہ زمین پر پہلے صرف پانی ہی پانی تھا۔ اس وقت نہ میدان تھا، نہ جنگل تھا، نہ پہاڑ تھا۔ زمین اس کے بغیر پوشیدہ تھی۔ اور خشکی اور تری میں کوئی فرق نہ تھا۔ یعنی پانی ہی پانی تھا۔ سمندر ہی سمندر تھا۔ خشکی نہ ہونے کی وجہ سے بستی اور ٹاپو کچھ بھی نہ تھا۔ نہ افریقہ تھا نہ امریکا تھا نہ یورپ تھا نہ ایشیاتھا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کے ہمالیہ اور ہمالیہ کی چوٹیاں بھی نہیں دکھائی پڑتی تھی۔ ہر جگہ صرف پانی کا ہی راج تھا۔ مگر یہ دنیا ایک جیسی نہیں رہتی اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اب پانی کے ساتھ ساتھ زمین بھی نظر آتی ہے اور بستیاں بھی نظر آتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے۔ اس میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ ہر شے کے ساتھ جوانی اور بڑھاپا لگا رہتا ہے۔ اور پانی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

رہا باقی نہ وہ پانی کا ریلا،
اسے خشکی نے پستی میں دھکیلا،
زمین آہستہ آہستہ گئی چوس،
چھپائے مال کو جس طرح کنجوس،
تری کا جب کہ دامن ہو گیا چاک،
تو خشکی نے اڑائی جا بجا خاک،
پہاڑ ابھرے ہوئے میدان پیدا،
ہوئے میدان میں نخلستان پیدا،
تری کا گو ابھی بھی ہے پلہ بھاری،
لڑائی ہے مگر دونوں میں جاری،
کیا کرتے ہیں دونوں کانٹ اور چھانٹ،
چلی جاتی ہے باہم لاگ اور ڈانٹ!

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب حالات بلکل بدل چکے ہیں۔ جہاں پہلے چاروں طرف پانی بہتا تھا، وہاں زمین نظر آتی ہے۔ پانی پستی میں چلا گیا، زمین پانی کو آہستہ آہستہ اس طرح چوس گئی جس طرح کنجوس انسان اپنے مال کو چھپاتا ہے۔ پانی کی کمی سے چاروں طرف خشکی پھیل گئی اور ہر طرف خاک اور دھول اڑنے لگی۔ زمین بننے کے بعد اس پر پہاڑ بنے اور میدان نظر آنے لگے۔ ان میدانوں میں ہرے بھرے باغات نظر آنے لگے۔ آج خشکی اور تری میں جنگ چل رہی ہے اور ابھی تک تری کا پلہ بھاری ہے، لیکن دونوں میں اس کاٹ چھانٹ کی جنگ جاری ہے۔

تری ہر دم چلی جاتی ہے اٹتی،
کبھی خشکی بھی ہے کایا پلٹتی،
تری کا تین چوتھائی میں ہے راج،
تو خشکی ایک چوتھائی میں ہے آج،
نہیں چلتی تری کی سینہ زوری،
زمین اک دن رہ جائے گی کوری،
پہن رکھا تھا جب آبی لبادہ،
مٹاپا بھی زمین کا تھا زیادہ،
مگر اب دن بدن چڑھتی ہے خشکی،
تری گھٹتی ہے اور بڑھتی ہے خشکی،
کمی بیشی نہیں آتی نظر کچھ،
بہت عمروں میں ہوتا ہے اثر کچھ!

تشریح:

نظم کے آخری بند میں اسماعیل میرٹھی کہتے ہیں کہ تری (پانی) خشکی (زمین) کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔ دنیا کے تین چوتھائی حصہ میں پانی اور ایک چوتھائی حصہ میں زمین ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ رفتہ رفتہ پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور زمین کا حصہ بڑھا جا رہا ہے۔ جب تک زمین میں پانی زیادہ تھا تو زمین کا حصہ کم نظر آتا تھا۔ مگر اب روز بہ روز پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور زمین بڑھتی جا رہی ہے۔ شاعر آخر میں کہتا ہے کہ زمین اور پانی کی کمی بیشی اتنی آسان نہیں ہے۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد یہ تبدیلی ہوئی ہے۔ جس طرح آدمی کی عمر بڑھتی ہے اس میں بہت سی تبدیلیاں نظر آتی ہے۔

سوالات و جوابات

سوال1:- پانی کے سدا پستی میں بہنے کی شاعر نے کیا وجہ بتائی ہے؟

جواب:- پانی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف آتا ہے۔ شاعر نے اس کی دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ پانی کا مزاج نرم ہوتا ہے۔ وہ کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتا۔ اس لیے وہ عاجزی کے ساتھ پستی میں بہتا ہے۔

سوال2:- پانی کے پتھر بن جانے سے کیا مراد ہے؟

جواب:- پانی کے پتھر بن جانے سے مراد یہ ہے کہ سردی کے موسم میں پانی جم کر برف بن جاتا ہے۔ تو کبھی اولے کی شکل میں گرتا ہے۔ برف اور اولے دونوں پتھر کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ اس لیے شاعر نے پانی کا پتھر بن جانا کہا ہے۔

سوال3:- جب کہیں بستی اور ٹاپو نہیں تھے تو زمین پر کس کا دور دورہ تھا۔

جواب:- اس وقت زمین پر پانی کا دور دورہ تھا کیونکہ چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔

سوال4:- زمین کے تین چوتھائی حصہ میں کس کا راج ہے؟

جواب:- پانی کا راج ہے۔

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی