نظم ایبسٹریکٹ آرٹ

0

نظم : ایبسٹریکٹ آرٹ
شاعر : سید محمد جعفری

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”ایبسٹریکٹ آرٹ“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام سید محمد جعفری ہے۔

تعارفِ شاعر :

سید محمد جعفری ایک صاحب اسلوب شاعر تھے۔ انہوں نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر 900 کے لگ بھگ نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام لوازمات نظر آتی ہیں۔

ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے
کی تھی ازراہِ مروّت بھی ستائش میں نے

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہاں بہت سے لوگوں کا جم غفیر لگا ہوا تھا۔ یہ ایک عجیب قسم کی نمائش تھی جو کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اس فن سے بہت کم لوگ آشنا تھے۔ مگر زیادہ تر لوگ نمائش کی تعریف میں کلمات ادا کر رہے تھے جیسے ان کو اس فن کی سمجھ بوجھ ہے۔ اب جبکہ شاعر کو یہ فن زرا پسند نہیں آیا مگر رسمِ دنیا کے لیے شاعر بھی مروتاً چند تعریفی کلمات اپنی جانب سے ادا کر دیے۔ ایسی نمائش میں لوگوں نے اپنی جانب سے تعریفی کلمات کہے تو کسی نے تنقیدی نظر سے دیکھا ، مگر فن کے بانی پکاسو نے نمائش کی تصویر کو جان بوجھ کر الٹا لٹکایا تھا جس سے اس کو لوگوں کی تعریف و تنقید کو پرکھنے میں آسانی ہوئی اور لوگوں کو شرمندگی۔

آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تب ایبسٹریکٹ آرٹ ایک نیا فن متعارف ہوا تھا، لوگ اس کی نمائش دیکھنے گئے ۔شاعر نے وہاں کچھ تصاویروں کی تعریف کی تھی لوگوں نے ان کو شاعر سمجھ کر یہ تاثر اپنا لیا تھا کہ شاید وہ شاعر ہیں اور اس فن سے واقف ہیں۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم تھاکہ وہ بھی ان کی طرح اس فن سے مکمل غافل ہیں۔ لوگ اسی وجہ سے ان سے تصویر کی وضاحت مانگنے لگے تاکہ ان کو بھی تصویر کی سمجھ آجائے اور وہ بھی فن سے محظوظ ہوسکیں۔ جب شاعر نے اپنی طرف سے تصویر کچھ خوبیاں بیان کی تو وہ لوگوں میں چہ مگوئیاں بلند ہونے لگیں۔ جب وہ ایک تصویر کا مطلب سمجھا رہے تھے تو وہ اس تصویر میں انناس بیان کر رہے تھے حالانکہ وہ ایک عورت کی تصویر تھی جس پر لوگوں میں ان کا برا تاثر گیا اور انھیں سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک تصویر کو دیکھا جو کمالِ فن تھی
بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہاں رکھی تصاویریں انھیں حیرت میں ڈالنے لگیں۔ وہ ان تصویروں کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ جن تصویروں کی نمائش ہو رہی تھی وہ انھیں کہیں سے تصویر معلوم نہیں ہوتی تھی۔ بے ڈھنگی اور خوفناک ایک تصویر میں بھینس کے جسم پر اونٹ کی گردن لگی تھی۔ وہ ان تصاویروں کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے۔ یہ عجیب فن تھا کہ ایسی خطرناک تصویریں بنائی جائیں جن کو بچے دیکھ کر ڈر سے ماؤں کے پلوؤں میں چھپ جائیں۔

ٹانگ کھینچی تھی کہ مسواک جسے کہتے ہیں
ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں

تشریح

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہاں عجیب الخلقت تصاویریں رکھیں تھیں۔ انھوں نے جس تصویر میں بھینس کے جسم پر اونٹ کا دھڑ دیکھا تھا اس کی ٹانگیں پتلی اور نازک تھیں اور وہ اس کی ناک کو خطرناک سے تشبیہ دیتے ہیں۔ پہلے تو وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ تصویر کیا ہے مگر جب لوگوں سے سنا کہ یہ اس فن میں اوج ثریا کا مقام رکھتا ہے۔ تو یہ بات انھیں لطیفہ سے کم نہیں لگی۔ مختلف جانوروں کا امتزاج دیکھ کر وہ یہی سوچتے تھے کہ یا تو یہ مصور کو معلوم ہوگا کہ یہ کیا ہے یا پھر خدا کو، تیسرے کسی شخص کو اس بات کا علم نہیں ہوسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید یہ مغرب کے بدمست لوگوں کا کوئی مشغلہ ہو گا، یہاں ان کو اپنی دولت صرف کرنے کا اچھا موقع نہیں ملتا ہوگا اس لیے ہی وہ اس بےکار سے فن پر وہ اپنی دولت صرف کرتے ہونگے۔

ایک تصویر کو دیکھا کہ یہ کیا رکھا ہے
ورقِ صاف پہ رنگوں کو گرا رکھا ہے

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہ مختلف تصاویر دیکھتے رہے اور ان پر تبصرہ کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فن کی وضاحت صرف فن پارہ خود کر سکتا ہے باقی یہ کسی کے سمجھنے کا روگ نہیں اور مصور ہی اس کی منطقی وضاحت دے سکتا ہے۔ اس نے جو سوچ کر یہ بنائی ہے اسی کو سچ ماننا ہوگا اس پر کوئی تنقید بھی نہیں کر سکتا۔ اسی پر مصنف نے چلتے چلتے ایک نمائشی تصاویر دیکھی بالکل سادہ کاغذ اور چند رنگ اس پر بکھرے ہوئے۔ شاعر اسے تصویر ماننے سے انکاری تھا کہ یہ کسی نے نشہ کی حالت میں جانوروں کا امتزاج بنا دیا ہوگا۔

آڑی ترچھی سی لکیریں تھیں وہاں جلوہ فگن
جیسے ٹوٹے ہوئے آئینے پہ سورج کی کرن

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو شاعر اس فن کی تعریف نہیں سمجھ رہے تھے مطلب کسی سادہ کاغذ پر رنگ پھینک دینا تجریدی فن ہے۔ تصویر پر اڑی ترچھی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ لکیریں ٹوٹے ہوئے آئینے پر سورج کی کرنوں کی طرح لگ رہی تھیں۔جو مختلف رنگوں سے مختلف زاویوں کی طرف مڑ جاتی ہیں۔جیسے ٹوٹے آئے پر روشنی پڑے تو وہ مختلف سمت میں جاتی ہے اسی طرح اس تصویر کا بھی کوئی توازن نہیں تھا، رنگ مختلف سمت کو بکھرے ہوئے تھے۔ یہ تجریدی فن کو سمجھنے کے لیے پہلے مصور سے اس کی وضاحت مانگی جائے پھر بھی سمجھنے میں بہت دقت ہوگی۔

اس نمائش میں جو اطفال چلے آتے تھے
ڈر کے ماؤں کے کلیجوں سے لپٹ جاتے تھے

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہاں جیسی مختلف و مشکل تصاویر آوایزاں تھیں ان میں مختلف جانوروں کے امتراج اور رنگوں کے بے ڈھنگے زاویے بکھری ہوئی لکیریں لگیں تھیں۔ یہ ایسا خوفناک قسم کا فن ہے کہ بچے دیکھ کر ڈر کر ماؤں کی جانب لپکے اور مارے ڈر ماؤں کے سینوں سے لگ گئے۔ جو بڑے اپنے ساتھ بچوں کو فقط سیر کےلیے لائے تھے ان بچوں کو اس فن میں رتی برابر بھی دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ ان تصاویر سے ڈر کر ماؤں کی طرف بھاگنے لگے تھے۔ یہ فن بچوں اور بڑوں سبھی کی سمجھ سے باہر تھا۔

الغرض جائزہ لے کر یہ کیا ہے انصاف
آج تک کر نہ سکا اپنی خطا خود میں معاف

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے توادھر کچھ ایسے عجوبہ دیکھنے کے بعد وہ اس فن سے بیزار ہو گئے۔ ان کی اس فن سے بیزاری کی وجہ یہ تھی کہ اس میں عجیب الخلقت مخلوقات بنائی گئی تھیں۔ جیسے بھینس کے جسم پر اونٹ کا سر، آڑی ترچھی لکیریں اور بے تکی تصویریں۔ شاعر اس سب سے بہت بری طرح خائف ہوا۔ وہ اس فن کو نشہ بازوں کی غلطی کہتا ہے۔ کوئی شخص بھی اس کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس پر شاعر نے اپنی غلطی مان لی ہے کہ اس نمائش میں جانا حماقت تھی۔ وہ محض مروتاً اس نمائش میں تصاویروں پر تعریفی کلمات کہہ رہا تھا حالانکہ یہ فن قابل سزا ہیں۔

میں نے یہ کام کیا، سخت سزا پانے کا
یہ نمائش نہ تھی اک خواب تھا دیوانے کا

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہ وہاں ہر تصویر کو دیکھ کر حیران تھے کہ یہ بھی فن ہے۔ ایسا فن جس سے بچے ڈر کر ماؤں کی جھولیوں میں چلے جاتے ہوں جو نہ تو بڑوں کی سمجھ میں آئے نہ بوڑھوں کی، یہ تصاویر سمجھنے والا واحد شخص مصور خود ہے۔ شاعر نے اس نمائش کو فن ہی کہنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مصوری سے مذاق کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ ان تصاویروں کو جن کا نہ سر ہے نہ پیر کو بے کار اور فضول کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نمائش نہیں بس دیوانےکا خواب ہے۔

سوال 1 : درست جواب کے شروع میں (✓) کا نشان لگائیں۔

۱ : شاعر نے تصاویر کی تعریف کیوں کی؟

  • ٭ان سے متاثر ہو کر
  • ٭فن کی باریکی کو سمجھ کر
  • ٭ان کی خوب صورتی کی وجہ سے
  • ٭محض مروت سے (✓)

۲ : شاعر نے تصویر میں بھینس کے جسم پر کس جانور کی گردن دکھائی ہے؟

  • ٭گائے کی
  • ٭اونٹ کی (✓)
  • ٭بکری کی
  • ٭ہاتھی کی

۳ : شاعر کے خیال میں نمائش حقیقت میں کیا تھی؟

  • ٭ایک یادگار نمائش
  • ٭دیوانے کا خواب (✓)
  • ٭آرٹ کی خدمت
  • ٭تصاویر کا قابلِ قدر نمونہ

سوال 2 : مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کریں :

ستائش : دلیپ کمار کے اداکاری میں کام کو اہلِ ذوق لوگ قابلِ ستائش نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مصور : مصور قدرت کے جو نظارے بناتے ہیں وہ قابلِ دید ہوتے ہیں۔
اطفال : چند اطفال گلی میں فٹ بال کھیل رہے ہیں۔
جائزہ : زلزلہ سے متاثرہ علاقہ کا جائزہ خود وزیراعظم لے رہے ہیں۔
نمائش : شادیوں میں اسلحہ کی نمائش اب رواج بن گیا ہے۔

سوال 3 : نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔

خلاصہ :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہاں بہت سے لوگوں کا جم غفیر لگا ہوا تھا۔ یہ ایک عجیب قسم کی نمائش تھی جو کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اس فن سے بہت کم لوگ آشنا تھے۔ مگر زیادہ تر لوگ نمائش کی تعریف میں کلمات ادا کر رہے تھے جیسے ان کو اس فن کی سمجھ بوجھ ہے۔

اب جبکہ شاعر کو یہ فن زرا پسند نہیں آیا مگر رسمِ دنیا کے لیے شاعر بھی مروتاً چند تعریفی کلمات اپنی جانب سے ادا کر دیے۔ ایسی نمائش میں لوگوں نے اپنی جانب سے تعریفی کلمات کہے تو کسی نے تنقیدی نظر سے دیکھا ، مگر فن کے بانی پکاسو نے نمائش کی تصویر کو جان بوجھ کر الٹا لٹکایا تھا جس سے اس کو لوگوں کی تعریف و تنقید کو پرکھنے میں آسانی ہوئی اور لوگوں کو شرمندگی۔ اس نظم میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے توادھر کچھ ایسے عجوبہ دیکھنے کے بعد وہ اس فن سے بیزار ہو گئے۔

ان کی اس فن سے بیزاری کی وجہ یہ تھی کہ اس میں عجیب الخلقت مخلوقات بنائی گئی تھیں۔ جیسے بھینس کے جسم پر اونٹ کا سر، آڑی ترچھی لکیریں اور بے تکی تصویریں۔ شاعر اس سب سے بہت بری طرح خائف ہوا۔ وہ اس فن کو نشہ بازوں کی غلطی کہتا ہے۔ کوئی شخص بھی اس کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس پر شاعر نے اپنی غلطی مان لی ہے کہ اس نمائش میں جانا حماقت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہ وہاں ہر تصویر کو دیکھ کر حیران تھے کہ یہ بھی فن ہے۔ ایسا فن جس سے بچے ڈر کر ماؤں کی جھولیوں میں چلے جاتے ہوں جو نہ تو بڑوں کی سمجھ میں آئے نہ بوڑھوں کی، یہ تصاویر سمجھنے والا واحد شخص مصور خود ہے۔ شاعر نے اس نمائش کو فن ہی کہنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مصوری سے مذاق کے زمرے میں آتا ہے۔

سوال 4 : مختصر جواب دیں :

۱ : شاعر نے کس قسم کے آرٹ کی نمائش دیکھی؟

جواب : شاعر نے ابسٹریکٹ آرٹ کی نہ قابل فہم نمائش دیکھی۔

۲ : کیا شاعر اس نمائش سے متاثر ہوا؟

جواب : شاعر اس نمائش سے ہرگز بھی متاثر نہ ہوئے بلکہ ان کا تاثر تھا کہ یہ کسی دیوانے کے خواب کے ایسا ہے اسے دیکھنا جرم ہے۔

۳ : شاعر نے اس نمائش کی تعریف کیوں کی؟

جواب : شاعر نے نمائش کی تعریف فقط مروتاً کی۔

۴ : نمائش کی تصویروں کا بچوں پر کیا اثر ہوا؟

جواب : نمائش کی تصویروں کو دیکھ کر بچے ڈر کے مارے ماؤں سے لپٹ گئے۔

۵ : شاعر اس نمائش کو کیا قرار دیتا ہے؟

جواب : شاعر اس نمائش کو دیوانے کا خواب قرار دیتا ہے جسے دیکھنا جرم ہے۔

سوال 5 : نظم کے آخری دو اشعار کی تشریح کریں۔

الغرض جائزہ لے کر یہ کیا ہے انصاف
آج تک کر نہ سکا اپنی خطا خود میں معاف

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے توادھر کچھ ایسے عجوبہ دیکھنے کے بعد وہ اس فن سے بیزار ہو گئے۔ ان کی اس فن سے بیزاری کی وجہ یہ تھی کہ اس میں عجیب الخلقت مخلوقات بنائی گئی تھیں۔ جیسے بھینس کے جسم پر اونٹ کا سر، آڑی ترچھی لکیریں اور بے تکی تصویریں۔ شاعر اس سب سے بہت بری طرح خائف ہوا۔ وہ اس فن کو نشہ بازوں کی غلطی کہتا ہے۔ کوئی شخص بھی اس کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس پر شاعر نے اپنی غلطی مان لی ہے کہ اس نمائش میں جانا حماقت تھی۔ وہ محض مروتاً اس نمائش میں تصاویروں پر تعریفی کلمات کہہ رہا تھا حالانکہ یہ فن قابل سزا ہیں۔

میں نے یہ کام کیا، سخت سزا پانے کا
یہ نمائش نہ تھی اک خواب تھا دیوانے کا

تشریح :

نظم “ایبسٹریکٹ آرٹ” شاعر سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ ایبسٹریکٹ آرٹ کی نمائش دیکھنے گئے تو وہ وہاں ہر تصویر کو دیکھ کر حیران تھے کہ یہ بھی فن ہے۔ ایسا فن جس سے بچے ڈر کر ماؤں کی جھولیوں میں چلے جاتے ہوں جو نہ تو بڑوں کی سمجھ میں آئے نہ بوڑھوں کی، یہ تصاویر سمجھنے والا واحد شخص مصور خود ہے۔ شاعر نے اس نمائش کو فن ہی کہنے سے انکار کر دیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مصوری سے مذاق کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ ان تصاویروں کو جن کا نہ سر ہے نہ پیر کو بے کار اور فضول کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نمائش نہیں بس دیوانےکا خواب ہے ۔