نظم اے شریف انسانو کی تشریح

script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js">
0

بند1:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر

حوالہ: یہ نطم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے۔ یہ بند نظم “اے شریف انسانو! ” سے لیا گیا ہے ۔ اس کے شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے۔

تشریح: ساحر لدھیانوی کہتے ہیں کہ خون اپنا ہو یا کسی پرائے کا ہو۔ آخر کار خون آدم کی نسل کا ہے۔ اور جنگ چاہیے مشرق میں لڑی جائے یا مغرب میں لڑی جائے۔ اس سے دنیا کے امن میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے۔

بند2:

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلے کہ غیروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

حوالہ: یہ نطم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے۔ یہ بند نظم “اے شریف انسانو! ” سے لیا گیا ہے ۔ اس کے شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے۔

تشریح: ساحر لدھیانوی کہتے ہیں کہ کہیں بم گرا کر گھروں کو برباد کیا جائے یا سرحد پر بم گرایا جائے اس سے دنیا کی تعمیر اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ملک کے لوگوں کے کھیت جلے یا دوسرے ملکوں کے لوگوں کے کھیت جلے۔ اس سے دنیا میں بھوک مری پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اس حرکت سے بچنا چاہیے۔

بند3:

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میچوں پہ روتی ہے

حوالہ: یہ نطم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے۔ یہ بند نظم “اے شریف انسانو! ” سے لیا گیا ہے ۔ اس کے شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے۔

تشریح: ساحر لدھیانوی کہتے ہیں کہ جنگ میں کسی کے ٹینک آگے بڑھے یا کسی کے ٹینک پیچھے ہٹے۔ ہر صورت میں ہمار اپجاؤ زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ ہم اپنی جیت کا جشن منائیں یا اپنی ہار کا ماتم کریں۔ آخر کار زندہ لوگ مرنے والوں پر اآنسو بھاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے۔

بند 4:

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دےگی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتجاج کل دےگی

حوالہ: یہ نطم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے۔ یہ بند نظم “اے شریف انسانو! ” سے لیا گیا ہے ۔ اس کے شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے۔

تشریح: ساحر لدھیانوی کہتے ہیں کہ جنگ کسی بھی طرح سے ہمارے مسئلوں کو حل نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ جنگ تو خود ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ جنگ ہمیں آج آگ میں جلائے گی اور خون میں نہلاۓ گی۔ اور کل ہمیں بھوک اور ضرورت میں مبتلا کر دے گی۔ اس لیے ہمیں جنگ سے بچنا چاہیے۔

بند 6:

اس لیے اے شریف انسانوں!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

حوالہ: یہ نطم ہماری کتاب جان پہچان میں شامل ہے۔ یہ بند نظم “اے شریف انسانو! ” سے لیا گیا ہے ۔ اس کے شاعر کا نام ساحر لدھیانوی ہے۔

تشریح: ساحر لدھیانوی کہتے ہیں کہ اے دنیا کے شریف انسانوں اس جنگ سے ہونے والے نقصانات کو مدنظر رکھ کر ہمارا انسانی فرض ہے کہ ہم ہر طرح سے جنگ کو ٹالنے رہے تو اچھا ہے ہمارے اور آپ کے گھر میں پیار،محبت اور امن کی شمع لگاتار جلتی رہے تو اچھا ہے۔ بہرحال ہمیں جنگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

⭕️ غور کریں:

نظم “اے شریف انسانو” کے شاعر “ساحر لدھیانوی” کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی جنگ ہو اس سے تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ اور کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ جنگ انسانیت اور خوشحالی کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ اس لیے ہمیں اس جنگ سے بچنا چاہیے۔

⭕️سوالات و جوابات:

سوال1: “روح تعمیر” کے زخم کھانے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

جواب: “روح تعمیر” کے زخم کھانے سے شاعر کی مراد ہے کہ دنیا کی ترقی میں رکاوٹ آتی ہے۔

سوال2: دھرتی کے کوکھ کے بانجھ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

جواب: دھرتی کی کوکھ کے بانجھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس زمین پر بم گرتے ہیں وہ زمین کھیتی باڑی کرنے کے لائق نہیں رہتی۔

‌سوال3: شاعر نے جنگ کو امن عالم کا خون کیوں کہا ہے؟

جواب: شاعر نے جنگ کو امن عالم کا خون اس لیے کہا ہے کہ جنگ کہیں بھی ہوتی ہے مگر اس کا اثر ساری دنیا پر پڑتا ہے اور امن بگڑتا ہے۔

‌⭕️ عملی کام:
اس نظم میں اپنا _ پرایا، مشرق _ مغرب، وغیرہ متضاد الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ایسے ہی کچھ لفظوں کی فہرست بنائے۔

متضاد لفظوں کی فہرست:

الفاظ متضاد
میں تو
یہ وہ
زندگی موت
جشن سوگ (ماتم)
آگے پیچھے

جنگ کے نقصانات پر مختصر مضمون :

دنیا میں کہیں بھی جنگ ہو۔ اس میں کسی اپنے کا خون بہے یا کسی پرآئے کا خون باہے۔ دراصل نسلِ آدم کا خون ہیں۔ اور اس جنگ سے دنیا کی ترقی میں رکاوٹ آتی ہے۔ امن کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس زمین پر بم گرتے ہیں وہ کھیتی باڑی کرنے کے لائق نہیں رہتی۔ اور بھک مری ہونے لگتی ہیں۔ دوست مرے یا دشمن مرے بہر حال مرنے والوں پر آنسو بہائے جاتے ہیں۔ یہ جنگ دراصل خود ہی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہمیں ہر صورت میں جنگ سے بچنا چاہیے اور ہر گھر میں محبت اور خوشحالی کی شمع جلتی رہنی چاہیے۔

⭕️ ساحر لدھیانوی کی حالات زندگی:

  • اصل نام : عبدالحئی
  • قلمی نام : ساحر لدھیانوی
  • تخلص : ساحر
  • پیدائش : 1921ء لدھیانا (پنجاب) میں پیدا ہوۓ۔
  • وفات : 1980ء میں ہوا۔

ساحر ادبی دنیا میں ساحر لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوے۔ طالب علمی کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا۔ اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوے۔ جب ملک آزاد ہونے پر تقسیم ہوا تو ساحر دہلی آ گئے۔ اور پھر ممبئی چلے گئے۔ ساحر نے اپنی بہترین شاعری کی بدولت فلمی نغمہ نگاری میں جو مقام حاصل کیا وہ بے مثال ہے۔ فلموں میں جب بھی ان کو موقع ملا انہوں نے غریبوں اور مظلموں کے حق میں بہترین گیت لکھے۔ ساحر نے ہندو، مسلم ایکتا پر بہت زور دیا۔

ساحر کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوے۔ “پرچھائیاں” اور “تلخیاں” کو بے مثال مقبولیت ملی۔ جو ان کے لا جواب شاعری کے مجموعہ ہیں۔
1980ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

تحریر ارمش علی خان محمودی بنت طیب عزیز خان محمودی