نظم خضر راہ کا مرکزی خیال

0

نظم “خضر راہ” اقبال کی بہت مشہور نظم ہے۔یہ اقبال کی ملی شاعری کا بہترین شاہکار ہے۔ اس نظم میں اقبال کا تصور خودی واضع طور پر سامنے آجاتا ہے۔

اس نظم کی شکل مقالے کی ہے۔ جس میں وہ تمام زندگی اور قوم کے مختلف مسائل کے متعلق حضرت خضر علیہ السلام سے سوالات کرتے ہیں اور حضر علیہ اسلام ان کا جواب دیتے ہیں۔ظاہری اعتبار سے اس نظم میں خیالات کی ابتداء ، اور ان کا ارتقاء اور ان کا بیان نہایت فن کارانہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔ایک بند دوسرے بند سے مربوط ہے۔اکثر بندوں کے اندر ربط و ارتقاء، خیال پر جوش اور ولولہ انگیز ہے۔ پہلا بند کی شاعری بہت حسین موقع ہے۔ بہت لطیف و نفیس انداز میں تصویر پیش کی گئی ہے۔ہر چیز صاف شفاف ہے۔ یہاں your پر اقبال نے ایک ڈرامائی منظر نہایت کامیابی سے تحریر کیا ہے۔ جس میں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی حضر سے ہم کلام ہیں۔

پہلے بند کے استعارے بہت حسین ہیں۔مگر نظم میں ہر جگہ خیالات و جذبات کے اظہار میں شعریت یکساں نہیں پھر بھی اقبال کا پیغام صرف مسلمانوں تک نہیں بلکہ اقبال کی نظر سارے انسانی مسائل پر حاوی ہے۔ یہ دنیائے اسلام کی خاص گتھیوں کو ہی سلجھانا چاہتے ہیں۔

اقبال کی رگ رگ میں اسلامی جذبہ موجزن تھا۔ اقبال ایک احساس دل رکھتے ہیں جو کہ مسلمانوں کے تنزل اور ان کے غفلت میں لاپرواہی اور پوری قوم کے جمود کو دیکھ کر بے چین ہو گیا مگر وہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ کل انسانی دنیا کے مسائل ان کے سامنے تھے۔وہ مغربی تہذیب کے طلسم کے تباہ کن اثرات سے پوری طرح واقف تھے اور وہ قومی جمود کو توڑ کر بیدار کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی قوم کی فلاح اتحاد میں ہے، ربط وضبط میں ہے۔ ایشیا والے بھی اس نکتہ سے بے خبر ہیں۔

اقبال کا دماغ بہت ہی بلند پایا کا تھا۔ اس لئے انہوں نے بلند خیالات کو داخل کر کے قوم وملی شاعری کی فضا ہی بدل دی۔ اقبال نے اپنی نظم خضر راہ کو صحرا نوردی، زندگی سلطنت ،سرمایہ محنت اور دنیائے اسلام کے عنوانات میں بانٹنا ہے۔ ان کا ہر عنوان ایک دوسرے عنوان سے ربط و تسلسل میں ہے۔ ان کا سب سے بڑا مقصد دنیائے اسلام ہے جس میں وہ مسلمانوں کو ترجیح دیتے ہیں اور دانوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک کرانا چاہتے ہیں۔