نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے کا خلاصہ

0

نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے کا خلاصہ

اقبال سب سے بڑے فلسفی شاعر ہے۔ اقبال کا مشرقی و مغربی فکر کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ نصاب میں شامل اقبال کی نطم “روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” اقبال کے دوسرے مجموعۂ کلام “بال جبرئیل” سے ماخوذ ہے۔

اس نظم میں اقبال نے خوبصورتی کے ساتھ آدم کے جنت سے زمین پر بھیجے جانے کا قصہ بیان کیا ہے۔ اس نظم میں آدم۴ زمین پر پہنچتے ہیں تو روح ارضی یعنی زمین کی روح ان کا استقبال کرتی ہے۔ اور نیلے آسمان، خاموش فضا، اونچے پہاڑ،گھنے جنگل، گہرے سمندر اور تیز ہواؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ کل (جب آدم جنت میں تھے) تو تمہارے سامنے فرشتے تھے، تو تم انہیں دیکھتے تھے۔ اب دنیا کے آئینہ میں خود اپنی ادائیں دیکھوں۔ پھر آدم کو ان کی حقیقت بتاتی ہے کہ تم ذرا غور سے اپنے وجود پر نظر ڈالو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں تم سب سے افضل ہو۔ اور ہر چیز تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے۔ فرشتوں نے آدم کو ان کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے جنت سے رخصت کیا تھا۔

اس نظم میں اقبال روح ارضی کو ذریعہ بنا کر انسان کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو جدوجہد (محنت) کرتاہے۔ اس لیے انسان کو چاہئے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تقدیر پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اپنے عمل سے خود اپنی تقدیر لکھیں۔ اور حالات سے مایوس نہ ہو۔تم مسلسل کوشش سے خود ایک نئی دنیا آباد کر سکتے ہو۔ (یعنی انسان اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو خوبصورت جنت بنا سکتا ہے-) بلکہ وہ اپنی خودی کو اتنا بلند کر لے کہ پھر خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

سوال:- شاعر مشرق علامہ اقبال کی حالات زندگی اور شاعرانہ خصوصیات بیان کیجئے۔

  • نام : شیخ محمد اقبال
  • تخلص : اقبال
  • پیدائش : 1877ء سیالکوٹ پنجاب
  • وفات : 1938ء لاہور
  • والد : شیخ نور محمد
  • والدہ : امام بی بی
  • دادا : شیخ رفیق
  • خطاب : 1903ء میں حکومت برطانیہ نے “سر” کا خطاب دیا۔ اس کے علاوہ اقبال کو “شاعر مشرق ” بھی کہا جاتا ہے۔

اقبال پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ سیالکوٹ میں پیدا ہوے۔ ان کے آباءواجداد کشمیری پنڈت تھے۔ جو ترک وطن (وطن چھوڑ کر) سیالکوٹ آگئے۔ اور مذہب اسلام قبول کر لیا۔

تعلیم:

اقبال نے ابتدائی تعلیم مکتب سے حاصل کی مولوی سید میر حسن سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی.اے. اور ایم.اے. کیا۔1905ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ گئے جہاں سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور جرمنی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

ملازمت:

گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفے کے پروفیسر ہوۓ۔ 1908ء میں ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ مگر یہ پیشہ اقبال کے مزاج اور طبیعت دونوں کے خلاف تھے۔ اسلۓ اقبال نے جلد اس پیشہ کو چھوڑ دیا۔

شاعرانہ خصوصیات:

اقبال کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ داغ دہلوی سے اصلاح لیتے تھے۔ اقبال اردو شاعری کے عظیم ہستی ہے جن کا نام قیامت تک روشن رہے گا۔ اقبال نے قوم کو بیدار کرنے کے لیے کئی نظمیں کہیں۔ اور پوری زندگی قوم کی اصلاح کرنے کے لیے شاعری کرنے پر وقف کردی۔ اقبال نے اردو نظم کو وسعت اور بلندی عطا کی جس کا تصور ممکن نہیں۔
▪️اقبال کی شاعر کو تین ادوار (زمانوں) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

🔘پہلا دور 1901ء سے 1905ء تک:

اقبال کی اس دور کی شاعری میں وطن کی محبت کا غلبہ ہے۔ جو اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ اقبال نے وطن کے لوگوں کے دل میں وطن کی محبت اور عظمت پیدا کرنے کے لیے سینکڑوں نظمیں لکھیں۔ اقبال کا قومی ترانہ آج بھی ہر زبان پر سنا جا سکتا ہے۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا

🔘دوسرا دور 1905ء سے 1908ء تک:

اقبال کا یہ وہ زمانہ ہے جو انگلینڈ میں گزرا۔ اس دور میں فارسی شاعری زیادہ اور اردو کلام بہت کم ہے۔مگر یہ دور اقبال کی شاعری کا اہم موڑ ہے جو بعد کی شاعری کی بنیاد ثابت ہوئی۔ انگلینڈ کے سفر نے اقبال کے دماغ کے دریچے کھول دۓ۔ جس کی وجہ سے وطن کی محبت اور مذہب اسلام کی عظمت اقبال کے دل میں پیوست ہو گئی۔

🔘تیسرا دور 1908ء سے 1938ء تک:

یہ دور اقبال کی شاعری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس دور کی شاعری فلسفیانہ ہے۔یہ فلسفہ قرآن کی تفسیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
▪️اقبال کے اس دور کی شاعری کی بنیادی خوبیاں درج ذیل ہیں:

(1) خودی فلسفہ:

اقبال نے قوم کی حالت میں سدھار لانے کے لیے خودی کا فلسفہ دیا۔ جسے دوسرے الفاظ میں عرفان ذات بھی کہا جاتا ہے۔ (یعنی انسان خود اپنی ذات کی قدروقیمت پہچانے)

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

(2) جدو جہد:

اقبال کے نزدیک خودی کو مضبوط بنانے والی چیز جدوجہد ہے۔

نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہو جائے

(3) جہدوعمل:

انسان کو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے عمل اور قول میں یکسانیت لازمی ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت ہے نہ نوری ہے نہ ناری ہے

(4) عشق:

اقبال کا فلسفہ یہ ہے کہ عمل میں ثابت قدم رہنے کے لیے عشق (دیوانہ پن) کا ہونا لازمی ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاۓ لب بام ابھی

(5) مایوسی کفر ہے:

اقبال زندگی اور آخرت کی کامیابی کے لیے انسان کو پر امید رہنے کا سبق دیتے رہے۔

نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

اقبال نے نوجوانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اقبال نوجوانوں کو شاہین سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہے

اقبال جتنے بڑے مفکر تھے اتنے ہی بڑے فنکار بھی تھے۔ فارسی، انگریزی اور اردو میں اقبال کی نظم و نثر کا ذخیرہ بکھرا ہوا ہے۔ اقبال کی شاعری کے چار مجموعہ “بانگ درا” ، ” بال جبرئیل” ، “ضرب کلیم” اور “ارمغانِ حجاز” شائع ہو چکے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ بلند درجہ قومی اور مذہبی شاعر کی حیثیت سے “شاعر مشرق سر ڈاکٹر علامہ اقبال” کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔

⭕️ نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے کی تشریح

بند 1۔

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردے میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!
بےتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
  • معنی: مشرق : پورب
  • جلوۂ : نور/رونق/تجلی
  • ایامِ جدائی : جدائی کے دن (زمانہ)
  • ستم : ظلم / زیادتی/تشدد
  • جفا : ظلم/ زیادتی/تشدد
  • بےتاب : بے طاقت /کمزور
  • معرکہ : جنگ

حوالہ:- یہ بند ہماری نصاب میں شامل ہے اور نظم “روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” سے لیا گیا ہے۔ اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تشریح: اقبال کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر پہنچنے پر زمین کی روح کہتی ہے کہ اے انسان! اپنی آنکھیں کھول۔ اور دیکھ کے تیرے سامنے زمین آسمان اور خوبصورت فضا ہے۔ ان پر نظر ڈال۔ اور یہ دیکھ کہ مشرق کی جانب سے سورج طلوع ہو رہا ہے، یہ نظارہ دیکھنے کے قابل ہے اس پر نظر ڈالتے ہی اس ذات (خدا تعالیٰ) کا خیال تیرے دل میں آئیگا۔ جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا۔ اور تو ان نظاروں میں اس قدرتِ حقیقی (خدا تعالیٰ) کا جلوہ (نور) دیکھیں گا۔ تو اس محبوبِ حقیقی سے جدا ہوکر یہاں آیا ہے۔ یہ تیرے لیے ستم و جفا ہے۔ اور یہ زندگی تیرے لیے جدائی کا زمانہ ہے، تجھے صبر سے کام لینا ہوگا اور خوف و امید کا معرکہ (جنگ) دیکھنا ہوگا اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
(اقبال نے اس بند میں انسان کو قدرتِ ربانی کے حسین جلوہ کو دیکھ کر محبوب حقیقی کو پہچاننے کا درس دیا ہے)

بند2۔

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
  • معنی: تصرف : قابو/اختیار
  • کوہ : پہاڑ
  • گنبد افلاک : نیلا گنبد (مراد آسمان)
  • صحرا : ریگستان
  • آئینہ : منہ دیکھنے کا شیشہ
  • ایام : یوم کی جمع (رات-دن)

تشریح: زمین کی روح انسان سے کہتی ہے کہ اے انسان! یہ آسمان کا نیلا گنبد، یہ خاموش فضائیں، یہ پہاڑ، یہ جنگل، یہ سمندر، یہ ہوائیں آج تمہارے سامنے (اختیار میں) ہیں۔ کل (ماضی میں آدم علیہ السلام جنت میں تھے) تمہارے فرشتوں کی ادائیں تھی۔ آج دنیا کے شب و روز (رات اور دن) کے آئینہ میں اپنی ادائیں دیکھوں۔

(اس بند میں اقبال نے انسان کو اپنی حقیقت کو پہچاننے کا درس دیا ہے۔ اور کہا کہ انسان اپنی خودی کو تعمیر کرکے کامیابی حاصل کر سکتا ہے)

بند 3۔

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید تیرے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثرِ آہ رسا دیکھ
  • معنی: گردوں کے ستارے: آسمان کے ستارے
  • ناپید : فنا/ غائب/گم
  • بحر : بڑا دریا/سمندر
  • تخیل : تصور/ خیال
  • بحر تخیل : خیالوں کا سمندر
  • اثر آہ : آہوں کا اثر
  • رسا : پہنچنے والا

تشریح: اقبال اس بند میں کہتے ہیں کہ جب انسان اپنی خودی (اپنے آپ) کو پہچان لیگا تو زمانہ اس کی آنکھوں کے اشاروں کو سمجھنے لگے گا۔ وقت انسان کے اشارے پر چلے گا۔ آسمان کے ستارے تجھکو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ تیرے تخیل (خیالات) کی دنیا لا محدود (جس کے حد کی انتہا نہ ہو) ہے۔ تیری آہوں میں اتنا اثر ہوگا کی اس کی چنگاریاں آسمان تک پہنچیں گی۔ اس لیے اپنی خودی کی تعمیر کر اور دیکھ تیری آہیں اپنا کیا اثر دکھاتی ہیں۔

بند 4۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!
  • معنی: خرشید : سورج
  • جہاں تاب : دنیا کو روشن کرنے والا
  • ضو : روشنی/ نور
  • شرر : چنگاری
  • فردوس : جنت
  • پنہاں : چھپا ہوا پیکر : مجسمہ/ پتلا پہیم : لگاتار /مسلسل

تشریح: اقبال کہتے ہیں کہ روح ارضی انسان سے کہہ رہی ہے کہ اے انسان! اس دنیا کو روشن کرنے والے سورج کی چمک دمک تیری ایک چنگاری میں ہے۔ خدا نے تجھے وہ ہنر دیا ہے کہ اس ہنر سے تو ایک نئی دنیا آباد کر سکتا ہے۔ خدا نے تجھے جنت بخشی تھی اب جب تو اس دنیا میں آ گیا ہے تو یہ جنت تجھے جچیےگی نہیں۔ کیونکہ تیرے خون میں خود ایک جنت پوشیدہ (چھپی ہوئی) ہے۔ روح ارضی کہتی ہے کہ اے خدا کے پتلے تو لگاتار کوشش کر اور پھر دیکھ تجھے اس کا کیا پھل ملتا ہے۔

(شاعر یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اے انسان تو اپنی محنت سے اس دنیا کو بھی جنت بنا سکتا ہے)

بند5

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ!
  • معنی: نالندہ : رونے والا (رنج و نشاط کے نغمے سنانے والا)
  • عود : ایک ساز جو سارنگی سے ملتا ہے
  • ازل : شروع/آغاز
  • خوں ریز : خون بہانے والا کم آزاد : تکلیف نہ دینے والا
  • راکب تقدیر : تقدیر لکھنے والا صنم خانۂ : بتوں کا گھر (مندر) خوں ریز : خون بہانے والا

تشریح:نظم کے آخری بند میں اقبال کہتے ہیں کہ اے انسان! تیری سارنگی کے ساز کا ہر تار ازل (شروعات) کے وقت سے ہی نغمے گا رہا ہے۔ جب سے اس دنیا کی شروعات ہوئی تب سے تو ہی عشق و محبت کے جنس کا خریدار ہے۔ تو دنیا کے اہم رازوں کے مندروں کا استاد ہے، تو شروع سے ہی محنت کرنے والا اور خون پسینہ بہانے والا ہے۔ تو تقدیر کی سواری نا کر، تیری ہی رضا راکبِ تقدیر ہے۔
(یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی تقدیر کو اس قدر بلند کر لے کہ پھر خدا خود بندے سے پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے)

▪️نوٹ:- اس نظم میں شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے، تو اسے چاہیۓ کہ وہ اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پہچانے کہ میں اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہوں۔

⭕️مشقی سوالات و جوابات

سوال 1: روحِ ارضی آدم کا استقبال کیوں کرتی ہے؟

جواب: خدا نے جب آدم کو دنیا کی تمام مخلوق میں سب بہترین مخلوق بنا کر زمین پر بھیجا تو یہ زمین اس کے لیے ایک نیا مقام (جگہ) تھی۔ وہ یہاں پر اجنبی تھے۔ جب آدم۴ زمین پر پہنچنے تو زمین ان کی عظمت اور قدرو قیمت کو محسوس کرتی ہے اور ان کی آمد کا استقبال کرتی ہے تاکہ وہ دنیا کے حالات سے متعارف ہو جائے، اور دنیا کے لیے اجنبی نہ رہے۔

سوال2: تعمیر خودی کا کیا مطلب ہے؟

جواب: تعمیر خودی کا مطلب ہے کہ اپنی خودی کو ترقی دینا،اور اعلیٰ مرتبہ تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرنے کے ہیں۔(اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ فلسفہ خودی کو پیش کرنا ہے۔ اقبال نے لوگوں کو بتایا ہے کہ اگر دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو جدوجہد کرو۔ اور اپنے آپ کو پہچانوں۔)

سوال3: اس نظم کا بنیادی خیال کیا ہے؟

جواب: بنیادی خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ اور دنیا کی تمام چیزیں اسی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس لیے انسان کو سمجھنا چاہیئے کہ دنیا میں اس کا وجود کس لئے ہے۔

سوال4: اقبال کی شاعری کا امتیاز کیا ہے؟

جواب: اقبال دوسرے شاعروں سے مختلف ہیں۔ اقبال نے بار بار اپنے تعلق سے کہا ہے کہ میں شاعر نہیں بلکہ فلسفی اور پیغامبر ہوں۔ اقبال ایسے شاعر ہے کہ ان کی شاعری سے فلسفہ ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال نے اپنے فلسفے سے امت مسلمہ کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ اقبال مسلمانوں کو ذلت سے نکال کر اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے اقبال نے فلسفہ خودی پیش کیا ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے تقدیر کے بھروسے نہ بیٹھے، اور حالات سے مایوس نہ ہو۔ اقبال نے کامیابی کے لیے محنت، جدوجہد و عمل کو ضروری بتایا ہے۔

سوال5: ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہو، اسے کیا کہتے ہیں؟

جواب: ایسی نظم کو مخمس کہتے ہیں۔

سوال6: متضاد لکھوں۔

الفاظ متضاد
ارضی سمادی
خورشید ماہ
محبت نفرت
فلک زمین
ازل ابد

سوال7: اس نظم سے پانچ مرکب الفاظ کی نشان دہی کیجئے؟

(1) ایامِ جدائی
(2) معرکۂ بیم و رجا
(3) بحرِ تخیل
(4) خورشیدِ جہاں تاب
(5) تعمیرِ خودی

سوال8: نصاب میں شامل نظم “روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” کس کلام مجموعہ سے ماخوذ ہے؟

جواب: اقبال کا دوسرا مجموعہ کلام بال جبرئیل سے ماخوذ ہے۔

⭕️معروضی سوالات کے جوابات:

س1۔ “خودی” کا مطلب کیا ہے؟

ج: خودی کا مطلب ہے اپنی صلاحیتوں کا پتا لگانا اور انہیں نکھارنا۔

س2۔ نصاب میں شامل نظم “روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” کس شکل میں لکھی گئی ہے؟

ج : مخمس شکل میں لکھی گئی ہے۔

س3۔ اقبال کے شاعری مجموعوں کتنے ہیں۔ نام تحریر کرے؟

ج: چار ہیں۔ بانگِ درا، بالِ جبرئیل ضربِ کلیم ارمغانِ حجاز

س4: اقبال کے والد کا نام کیا ہے؟

ج: شیخ نور محمد

س5: اپنی محنت سے انسان دنیا کو کیا بنا سکتا ہے؟

ج: جنت بنا سکتا ہے۔

س6: اقبال کی شاعری میں خودی کے متعلق کوئی ایک شعر لکھیں؟

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

س7: اقبال کو حکومت برطانیہ نے کس خطاب سے نوازا؟

ج: 1903ء میں حکومت برطانیہ نے اقبال کو “سر” کے خطاب سے نوازا۔

س8: اقبال نے عمل میں ثابت قدم رہنے کے لیے کس چیز کو لازمی قرار دیا؟

ج: عمل میں ثابت قدم رہنے کے لیے اقبال نے عشق (یعنی دیوانہ پن) کو لازمی قرار دیا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاۓ لبِ بام ابھی

س9: نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے میں شاعر نے کس قصہ کو بیان کیا ہے؟

ج: اس نظم میں اقبال نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے زمین پر بھیجے جانے کا قصہ بیان کیا ہے۔

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی⭕️