نظم روٹیاں کی تشریح

0

شاعر اور نظم کا حوالہ: یہ بند نظیر اکبرآبادی کی نظم”روٹیاں” سے لیا گیا ہے اس نظم میں شاعر نے روٹی کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔

روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا،
کرتا پرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بہ جا،
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اچھل گیا،
ٹھٹھا ہنسی شراب صنم ساقی اس سوا،
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں،

تشریح:- اس بند میں نظیر فرماتے ہیں کہ جب انسان کا پیٹ روٹیوں سے خوب بھرا ہو تو اُسے کسی طرح کی فکر نہیں ہوتی وہ خوشی کے مارے اچھلتا کودتا پھرتا ہے آدمی کا پیٹ بھرا ہونے پر ہی اسے ہنسی مزاق سوجھتا ہے اور اسی وقت محبوب، شراب، ساقی یاد آتا ہے۔ اور یہ روٹیاں سو سو طرح سے دھوم مچاتی ہے۔ یعنی آدمی خوشی کے عالم میں طرح طرح کے کام کرتا ہے نظیر پر ڈاکٹر، وزیر، آغا کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے۔

قبل از طعام طنز بعد از طعام مزاح، جس کا مفہوم ہے کھانے سے پہلے طنز یعنی کھانے سے پہلے ہر چیز بری لگتی ہے۔ لیکن کھانے کے بعد یہی سب چیزیں اچھی لگنے لگتی ہے۔

جس جا پہ ہانڈی چولہا توا اور تنور ہے،
خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے،
چولھے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے،
جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے،
اس نور کے سبب نظر آتی ہیں روٹیاں!

تشریح :- نظیر کہتے ہیں کہ بھولے انسان کے سامنے جب ہانڈی، چولہا، توا، ہو تو اسے وہاں خالق کی قدرت نظر آنے لگتی ہے۔ اور جب چولہے میں آگ جلتی ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آگ میں نور ہی نور نظر آتی ہے کیونکہ اس آگ پر روٹی پکائی جاۓ گی اور بھوک میں آدمی کو روٹی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا اُسے ہر چیز میں روٹی نظر آنے لگتی ہے۔

آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام،
یا چکی چولھے کے جہاں گل زار ہوں تمام،
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام،
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام،
پہلے انہیں مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- بھوکے انسان کے سامنے جب توے تنور کا ذکر آتا ہے یا چکی چولہا جہاں ہو بس اس پر وہ سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس جگہ جھک کر سلام کرتا ہے کیونکہ یہی وہ خاص مقامات ہوتے ہیں۔ جہاں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور روٹی ہی تو سب کچھ ہے۔
مطلب روٹی کے آگے انسان سب خوشیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور بڑے سے بڑے کام کو بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بور بور،
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور،
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور،
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور،
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظیر کہتے ہیں کہ ان روٹیوں کے نور سے سب دل خوش ہیں۔ جب چھلنی میں آٹا چھانا جاتا ہے تو بھوکے آدمی کو وہ آٹا چھنتا ہوا نور نظر آتا ہے۔ اور جب روٹی پکانے کے لیے پیڑا بنایا جاتا ہے تو وہ اسے برفی اور لڈّو نظر آتا ہے۔ پیٹ کی آگ کو صرف روٹی ہی بجھا سکتی ہے کوئی اور چیز نہیں۔

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے،
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے،
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے،
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے،
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظیر کہتے ہیں کہ جب کسی نے ایک کامل فقیر (بزرگ) سے یہ پوچھا کہ خدا نے یہ چاند اور سورج کس لیے بناۓ ہیں۔ یہ سُن کر بزرگ نے کہا خدا تجھے سلامت رکھے ہم تو نہ چاند سمجھتے ہیں نہ سورج، ہمیں تو یہ سب روٹیاں ہی نظر آتی ہیں۔ یعنی بھوکے انسان کو ہر چیز روٹی ہی لگتی ہے۔

پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا،
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا،
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا،
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا،
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظیر کہتے ہیں کہ اس شخص نے کامل فقیر سے پوچھا کہ یہ بتاؤ! دل کا نور کیا ہے اور جب اسکو دیکھا جاتا ہے تو کیا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بات سُن کر بزرگ نے جواب دیا کہ تمہاری عقل کو کیا ہوا، دل پر کسی بات کا ظاہر ہونا، قبر میں مردے پر کیا گزر رہی ہے یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اصل کشف/غیب کی بات کا ظاہر ہونا ہے۔

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو،
میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو،
بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو،
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو،
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں!

تشریح:-اس بند میں نظیر کہتے ہیں کہ اگر انسان کے پیٹ میں روٹی نہ ہو یعنی بھوکا ہو تو پھر اس سے کوئی کام نہیں ہوتا اور نہ کہیں گھومنے کا من کرتا ہے اور نہ ہی خدا کی عبادت کرنے کا من کرتا ہے اور کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ “بھوکے پیٹ بھجن” نہیں ہوتے یعنی عبادت نہیں ہوتی۔ روٹیاں ہی اللّٰہ کی یاد دلاتی ہیں کیونکہ بھوکا انسان اللّٰہ کو زیادہ یاد کرتا ہے۔

کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے،
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے،
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے،
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے،
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظیر روٹی کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان روٹی کے واسطے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کوئی روٹی حاصل کرنے کے لیے لال کپڑے پہنے ہوئے تو کسی نے بال لمبے کیے ہوئے ہیں۔ کوئی سر پر رومال باندھے ہوے ہے یعنی روٹی پانے کے لیے انسان طرح طرح کے روپ اختیار کر لیتا ہے۔

دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے،
یا دشمنی و دوستی یا تند خوئی ہے،
کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے،
سب کوئی ہے اسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے،
نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظیر کہتے ہیں کہ دنیا میں اب نہ برائی ہے نہ دشمنی ہے، یہاں کوئی کسی کا نہیں، سب لوگ اس کے ارد گرد گھومتے ہیں جس کے ہاتھ میں روٹی ہو۔ یہ ایک کہاوت ہے کہ جس کے ہاتھ روٹی اس کا سب کوئی، مطلب یہ کہ لوگ اسی کی باتیں مانتے ہیں جس سے ضرورت پوری ہو۔ نظیر کا کہنا ہے کہ دوستی، دشمنی، اچھائی، برائی، تلخی اور تیزی جو بھی ہے سب روٹی کی وجہ سے ہے۔

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر،
روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر،
یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر،
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ،
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں!

تشریح:- نظم کے آخری بند میں نظیر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ روٹی کا انسان سے ازل (شروع) سے تعلق رہا ہے۔ بھوکے انسان کو سوکھی روٹی بھی دودھ اور شہد کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ چاہے وہ روٹی موٹی ہو یا پتلی، خمیری ہو یا چپاتی، گیہوں کی ہو یا جوار کی، کسی سے بھی بنی ہو، ہمیں تو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے کیونکہ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چاہیے پھر وہ کسی کی بھی بنی ہو۔ بھوک میں انسان کو ہر طرح کی روٹی اچھی لگتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ تازہ ہے یا باسی۔ ہمیں تو بس روٹی چاہیے۔

سوال 1:- روٹی کے تعلق سے نظم کا پہلا بند تمام بندوں سے مختلف ہے کیوں؟ جواب دیجیے۔

جواب:- نظم کا پہلا بند دوسرے بندوں سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس بند میں روٹی ہونے کے فائدے بتاۓ ہیں کہ جب انسان کو بھر پیٹ روٹی مل جاتی ہے تو اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ جبکہ نظم کے باقی بندوں میں یہ سچائی بیان کی گئی ہے کہ روٹی نہ ہو تو آدمی کو روٹی کے لیے سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے بندوں میں انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی مجبوری کا بھی احساس کرایا ہے۔

سوال 2:- نظم کے آخری بند کی تشریح کریں؟

جواب:- اس کا جواب بند نمبر 10 میں تشریح لکھ دی گئی ہے۔

سوال 3:- نظیر کو کس لقب سے یاد کیا جاتا ہے؟

جواب :- عوامی شاعر کے لقب سے۔

سوال4:- اردو نظم کا شیکسپئر کسے کہا جاتا ہے؟

جواب:- نظیر اکبر آبادی کو۔

سوال 5:- نظیر کا اصل نام کیا ہے؟

جواب:- شیخ ولی محمد

سوال 6:- نظم “روٹیاں” کا مرکزی خیال لکھئے.

جواب:- نظم روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں نظیر نے روٹی کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ روٹی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کئی طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ روٹی نہ ملے تو انسان بھوکا مر جاتا ہے۔ روٹی کے لیے انسان طرح طرح کے پیشے اختیار کرتا ہے۔ روٹی کے لیے چوری چکاری اور غنڈہ گردی جیسا کام بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہیں اور جب روٹی پیٹ میں جاتی ہے تو وہ خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی