نظم سر گزشت آدم

0

نظم سرگزشت آدم کی تشریح

یہ نظم علامہ اقبال کے پہلے شعری مجموعہ “بانگ درا” میں شامل ہے۔علامہ اقبال کی غزلوں اور نظموں کا یہ دلکش مجموعہ پہلی مرتبہ 1924ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سے لے کر اس وقت تک یہ کتاب متعدد بار طبع ہوچکی ہے اور اس کے ہزارہا نسخے شائع ہوچکے ہیں۔علامہ اقبال کی اس نظم (سرگزشت آدم) میں جدت فکر کی بڑی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ اس قسم کی نظموں کے لیے تین باتیں شرط ہیں۔ پہلی یہ کہ شاعر کا علمی پایا بہت بلند ہو، دوسری یہ کہ طبیعت میں جدت طرازی کا مادہ ہو، تیسری یہ کہ کلام پر قدرت حاصل ہو۔

چونکہ یہ نظم از اول تا آخر تلمیحات سے معمور ہے اس لیے ہر شعر کا مطلب جدا گانہ ہے۔اس نظم میں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے علامہ اقبال نے آدم علیہ السلام کی سرگزشت بڑے دلکش انداز میں بیان کی ہے۔ اب آئیے اس نظم کے اشعار کی تشریح پڑھتے ہیں۔

پہلا شعر

علامہ اقبال نے اس شعر میں اس پیمان کی طرف اشارہ کیا ہے جو انسان نے دنیا میں آنے سے قبل عالم ارواح میں اللہ سے وعدہ باندھا تھا یا اللہ نے بنی آدم کی ارواح کو پیدا کیا تو ان سے دریافت کیا: “الست بربكم” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو انہوں نے یک زبان ہو کر کہا: “بلی” ہاں کیوں نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان نے دنیا میں آکر اس پیمان کو بھلا دیا اور بنی آدم کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوگئی۔ حالانکہ خدا سے وعدہ کیا تھا کہ ہم تیرے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہیں بنائیں گے۔

دوسرا شعر

جب آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا کے اندر شعور ذاتی پیدا ہوا تو ان کا دل جنت سے اچاٹ ہو گیا۔ اس شعر میں اشارہ ہے ان دونوں کے جنت سے اخراج کی طرف۔

تیسرا شعر

دنیا میں آکر انسان کے ذاتی شعور کی بنا پر تحقیق و تلاش کا جذبہ پیدا ہو گیا اور اس سلسلہ میں اس نے اپنے تخیلات کی بلندی کا ثبوت دینا شروع کیا۔

چوتھا شعر

چونکہ انسان فطری طور پر تبدیلی اور انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے اس لئے ایک حالت میں زندگی بسر کرنا پسند نہ آیا یعنی انسان پر انقلاب آنے شروع ہو گئے۔

پانچواں شعر

اس شعر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لیے خانہ کعبہ تعمیر کیا یہ پہلا گھر تھا جو بتوں کے وجود سے پاک تھا لیکن بعد ازاں ان کی اولاد نے کعبہ کو بہت خانہ بنا دیا۔
(اس شعر میں ان 360 بتوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نکالے تھے)

چھٹا شعر

اس شعر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ سے ہمکلامی کی آرزو میں کوہ طور پر تشریف لے گئے اور اللہ نے انہیں “ید بیضا” کا معجزہ عنایت فرمایا۔

ساتواں شعر

اس شعر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی طرف اشارہ ہے یعنی یہودیوں نے انہیں اپنی دانست میں مصلوب کر دیا لیکن اللہ نے انہیں اس ذلت سے بچا کر آسمان پر پہنچا دیا۔

آٹھواں شعر

اس شعر میں حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے قبل نبوت کئی سال تک غارِ حرا میں خلوت اختیار فرمائی۔ یہیں آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور جام آفرین یعنی قرآن مجید کا تحفہ دیا گیا۔

نواں شعر

پہلے مصرعہ میں شری شنکر کی زندگی کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اہلِ ہندکو توحید کا پیغام سنایا یا۔سرود ربانی میں ان کی بانسری کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے مصرعہ میں افلاطون کی طرف اشارہ ہے کہ جس نے اہل یونان کو توحید کا درس دیا۔

دسواں شعر

اس شعر میں گوتم بدھ کی طرف اشارہ ہے کہ جس نے ہندکو بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کی تھی لیکن جب ہندؤں نے تلوار کے زور سے ان کے مذہب کا ہندوستان میں خاتمہ کر دیا تو اس کے پیرو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر چین میں چلے گئے۔
(علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بدھ مذہب کی تاریخ دو مصروں میں بیان کر دی ہے)

گیارہواں شعر

اس شعر میں مشہور فلسفی ویمقراطیس کی طرف اشارہ ہے جس نے چوتھی صدی قبل مسیح میں یہ تعلیم دی تھی کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے۔ یہ دنیا محض ذرّاتِ مادی کی ترکیب کا نتیجہ ہے کیونکہ مادہ کے علاوہ اور کوئی شئے موجود نہیں اس لئے انسان میں روح بھی نہیں ہے۔ مرنے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے۔ خدا اور رُوح کا انکار اہلِ دین کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

بارہواں شعر

اس شعر میں اسی آویزش کی طرف اشارہ ہے جو ازمنۂ وسطیٰ میں یورپ کے رومن کیتھولک کلیسا اور حکماء وفلسفہ کے درمیان پیدا ہوگئی تھی۔ کلیسا کی تعلیم یہ تھی کہ حق وہ ہے جو کلیسا پیش کرے اس کے خلاف حکماء کہتے تھے کہ حق وہ ہے جو عقل سے ثابت ہوسکے۔ حکماء کا خاتمہ کرنے کے لیے کلیسا نے محکمہ احتساب قائم کیا اور کئی سو سال تک ان کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر کلیسا کو شکست ہوئی اور یورپ میں اقلیت کا بازار گرم ہو گیا۔

تیرہواں شعر

اس شعر میں مشہور اطالوی عالم ہیئت گیلیلو کی طرف اشارہ ہے جس نے اجرام فلکی کی تحقیقات میں اپنی ساری عمر بسر کر دی تھی۔

چودھواں شعر

اس شعر میں پرنکیسؔ کی طرف اشارہ ہے جس نے کلیساؔ کی مخالفت کے باوجود اپنا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ آفتاب ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ کلیساؔ نے اس تعلیم کی بنا پر اسے کافر قرار دیا اور قتل کی دھمکی دی لیکن اس نے مطلق پرواہ نہیں کی۔ یہ حکیم موجودہ علم ہیئت کا بانی ہے اس کے بعد کیبلبر کاپرنیکس گیلیلیو اور نیوٹن نے اس کے نظریہ کی حمایت کی۔

پندرہواں شعر

اس شعر میں نیوٹن کی طرف اشارہ ہے جس نے کائنات میں کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔

سولہواں شعر

اس شعر کے پہلے مصرعہ میں ڈاکٹر زوٹجسن اور ڈاکٹر فریڈ کی ایجادات کی طرف اشارہ ہے۔ اول الذکر نے 1850 میں اتفاقی طور پر ان شعاعوں کو دریافت کیا تھا جب کہ وہ مختلف قسم کے برقی تجربے کر رہا تھا۔ چونکہ وہ اس وقت تک ان کی ماہیت سے ناواقف تھا اس لیے اس نے ان کا نام “ایکسریز” شعاع غیر معلوم رکھا۔ آج کل ان شعاعوں کے ذریعے سے جسم کے اندرونی اعضاء کا فوٹو لیا جاتا ہے۔

آخرالذکر نے بجلی (جسے مختلف کام لئے جاتے ہیں اور بلب روشن ہوتے ہیں) کے سلسلے میں بہت مفید تحقیقات کی بدولت یہ دنیا جنت کی طرح آسائشوں سے معمور ہو گئی۔

سترہواں شعر

لیکن ان تمام حیرت انگیز ایجادات کے باوجود انسان ہستی کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا۔خرد سے جہاں کو تہ نگیں یعنی تمام دنیا اپنے تصرف میں لے آیا۔ عقل کی بدولت میں نے نوائے فطرت کو مسخر کر لیا لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ اسی بات کو اقبالؔ نے ضرب کلیم میں یوں بیان کیا ہے؀

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک مسخر کر نہ سکا

اٹھارہواں شعر

لیکن جب میری مظاہر پرست آنکھ روشن ہوگئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا اور اس کائنات کا خالق تو میرے دل میں موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اس حقیقت سے کیسے آگاہ ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق کی بدولت۔

خلاصہ اس نظم کا یہ ہے کہ دنیا کے حاصل کرنے کا طریقہ عقل ہے اور خدا کے حاصل کرنے کا طریقہ عشق ہے۔