نظم شکست انتظار کی تشریح

0
  • نظم : شکستِ انتظار
  • شاعر : مرزا محمد یٰسین بیگ

تعارفِ شاعر :

آپ جدید اردو شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ۱۹۴۳ میں جموں میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے بی لب کیا اس کے بعد سرکاری محکموں میں کام کرتے رہے۔ آپ کی غزلوں کا پہلا مجموعہ شاخِ صنوبر کے تلے  ۱۹۶۲ میں شائع ہوا۔  نظموں کا مجموعہ ۱۹۹۱ میں دہر آشوب کے عنوان سے چھپا۔ آپ کی انفرادیت نظموں میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ ڈوگری میں آپ کی ایک طویل نظم شبدامرت کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔

شعر :

گلی کے موڑ پہ مسجد کے اس مینار تلے
خزاں رسیدہ چناروں کے زرد رُو پتے

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ شاعر پہلے شعر میں منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلی کے موڑ پر ایک مسجد موجود ہے اور مسجد کے مینار کے نیچے خزاں رسیدہ یعنی کہ پرانے اور بےرونق پتے گرے ہوئے ہیں۔ یہ پتے پیلے رنگ کے ہیں اور انتہائی اداس منظر کو پیش کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔

شعر :

چراغِ راہ کی مانند صبح و شام جلے
کہر میں لپٹی ہوئی ملجگی فضاؤں میں

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ انسان کسی راہ میں جلتے چراغ کی طرح صبح و شام وہیں بیٹھا رہتا ہے جیسے چراغ صبح و شام ایک ہی جگہ رکھا رہتا ہے۔ چاہے پھر شام دھند میں لپٹی ہوئی فضا آلود شام ہی کیوں نہ ہو وہ شخص چراغ کی طرح وہی محوِ انتظار رہتا ہے۔

شعر :

نظر نواز نظاروں کے داغ تک نہ ملے
سیاہ رات کے دامن  سے تیرگی نہ چھٹی

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ شخص وہاں بیٹھا تو ہے لیکن اسے کوئی ایسا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملتا جو اس کی نظروں کو پسند ہو یعنی اسے اس کا محبوب نظر نہیں آتا ہے راستے پر کہیں بھی۔ شاعر کہتے ہیں محبوب کہ نہ نظر آنے کی وجہ سے وہ بالکل اندھیری رات جیسا ہوگیا ہے جب رات کے دامن سے اندھیرا ختم ہی نہیں ہوتا اور ستارے بھی اس کے پاس اپنی روشنی دکھانے کو موجود نہیں ہوتے۔

شعر :

فلک پہ جلتے ستاروں کے داغ تک نہ ملے
گلی کے موڑ پہ اس سامنے کی کھڑکی میں

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔ شاعر کہتے ہیں اس شخص کے اندر کا اندھیرا باہر بھی پھیل گیا ہے اور بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کھڑکی کے سامنے بیٹھا اپنے محبوب کا منتظر ہے اس کھڑکی کے سامنے جلتے ستارے بھی موجود نہیں یعنی مکمل اندھیرا ہے وہاں۔

شعر :

وہ قیس منتظر و بے قرار بیٹھا ہے
نظر نظر میں شراروں کا اضطراب لیے

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ شخص بالکل نےقرار سا بیٹھا ہوا ہے اور وہ اپنے محبوب کا منتظر ہے۔ اس کی ہر نظر میں شرارے موجود ہیں کیونکہ وہ اپنے محبوب کو دیکھنے کے لیے بےچین ہے۔

شعر :

ڈھرکتے دل سے سر رہگزر بیٹھا ہے
اسے خبر نہیں  شاید کہ محمل لیلے

تشریح :

اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس انسان کی کیفیت بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ شخص ڈھرکتے دل کے ساتھ راہ گزر کو تک رہا ہے کہ ابھی یہاں سے اس کا محبوب گزرے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ شاید اسے خبر نہیں کہ اس کا محبوب تو یہاں سے ڈولی میں بٹھا کر لےجایا جاچکا ہے۔

مشق :

۱) یسٰین بیگ کی حیات اور شعری خدمات پر مختصر سا نوٹ تحریر کیجیے :

جواب : آپ جدید اردو شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ۱۹۴۳ میں جموں میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے بی لب کیا اس کے بعد سرکاری محکموں میں کام کرتے رہے۔ آپ کی غزلوں کا پہلا مجموعہ شاخِ صنوبر کے تلے  ۱۹۶۲ میں شائع ہوا۔  نظموں کا مجموعہ ۱۹۹۱ میں دہر آشوب کے عنوان سے چھپا۔ آپ کی انفرادیت نظموں میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ ڈوگری میں آپ کی ایک طویل نظم شبدامرت کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔

۲) نظم شکستِ انتظار میں کس طرح کی ذہنی کیفیت کی تصویر کشی کی گئی ہے؟

جواب : اس نظم میں شاعر دراصل امید اور ناامیدی کی کیفیت کو بیان کررہے ہیں۔ شاعر انسان کی ایسی ذہنی کیفیت کو بیان کررہے ہیں جو ناامیدی کا شکار ہو اور کسی کے انتظار میں محو ہو۔

۳) کھڑکی میں بیٹھے ہوئے قیس اور محمل لیلے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

جواب : قیس سے شاعر کی مراد وہ انسان ہے جو محوِ انتظار ہے اور لیلےٰ اس شخص کا محبوب ہے کسے ڈولی میں بٹھا کر لے جایا جاچکا ہے۔