نظم “عیدالفطر” کی تشریح

0

شاعر نظیر اکبر آبادی کی نظم “عیدالفطر” کے اشعار کی تشریح

حوالہ: یہ شعر عیدالفطر سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام نظیر اکبر آبادی ہے

ہے عابدوں کو طاعت تجرید کی خوشی،
اور زاہدوں کو زہد کی تمہید کی خوشی،
رند عاشقوں کو ہے کئی امید کی خوشی،
کچھ دلبروں کے وصل کی کچھ دید کی خوشی،
ایسی نہ شب برأت نہ بقرعید کی خوشی،
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی!

تشریح:

نظیر کہتے ہیں کہ الله تعالٰی کے نیک بندوں اور عبادت کرنے والوں کو رمضان کے مہینے کی بے مثال عبادت کی خوشی ہے۔ برائیوں سے بچنے والے نیک لوگوں کو یہ خوشی ہے کہ وہ پرہیز گاری کا ماحول بنانے میں کامیاب ہوۓ۔ پینے والوں اور محبت کرنے والوں کو یہ خوشی ہیکہ عید پر ان کی بہت سی امیدیں پوری ہوگی، اپنے اپنے محبوب سے ملاقات اور دیدار کا موقع ملیگا۔ ایسی خوشی تو نہ شب برأت کی ہوتی ہے اور نہ بقرعید کی خوشی ہوتی ہے، جیسی آج سب کے دل میں اس عیدالفطر کی خوشی ہو رہی ہے۔

روزے کی خشکیوں سے جو ہے زرد زرد گال،
خوش ہو گۓ وہ دیکھتے ہی عید کا ہلال،
پوشاکیں تن میں زرد سنہری سفید گال،
دل کیا کہ ہنس رہا ہے پڑا تن کا بال بال،
ایسی نہ شب برأت نہ بقرعید کی خوشی،
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی!

تشریح:

نظیر کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے گال جن کے پیلے پڑ گۓ تھے وہ لوگ عید کا چاند دیکھتے ہی خوش ہو گۓ ہیں، اپنے اپنے بدن پر خوبصورت لباس پہن رکھے ہیں، ان کے سفید بال بھی سنہری ہو گۓ ہیں، ان کا صرف دل ہی نہیں بلکہ بدن کا ایک ایک بال ہنس رہا ہے۔ ایسی خوشی تو نہ شب برأت کی ہوتی ہے اور نہ بقرعید کی خوشی ہوتی ہے، جیسی آج سب کے دل میں اس عیدالفطر کی خوشی ہو رہی ہے۔

پچھلے پہر سے اٹھ کے نہانے کی دھوم ہے،
شیرو شکر سیویاں پکانے کی دھوم ہے،
پیروں جواں کو نعمتیں کھانے کی دھوم ہے،
لڑکوں کو عیدگاہ جانے کی دھوم ہے،
ایسی نہ شب برأت نہ بقرعید کی خوشی،
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی!

تشریح:

نظیر کہتے ہیں کہ عید کی صبح ہونے سے پہلے ہی سب کو نہانے کی تمنا ہو رہی ہے۔ کسی کو شیر اور شکر اور سیوئیاں پکانے میں مزہ آ رہا ہے۔ بوڑھوں کو اور جوانوں کو طرح طرح کی چیزیں کھانے کا شوق ہو رہا ہے اور بچوں کو بن ٹھن کر عیدگاہ جانے کی بے قراری ہو رہی ہے۔ ایسی خوشی تو نہ شب برأت کی ہوتی ہے اور نہ بقرعید کی خوشی ہوتی ہے، جیسی آج سب کے دل میں اس عیدالفطر کی خوشی ہو رہی ہے۔

روزوں کی سختیوں میں نہ ہوتے اگر اسیر،
تو ایسی عید کی نہ خوشی ہوتی دل پزیر،
سب شاد ہیں گدا سے لگا شاہ تا وزیر،
دیکھا جو ہم نے خوب تو سچ ہے میاں نظیر،
ایسی نہ شب برأت نہ بقرعید کی خوشی،
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی!

تشریح:

نظیر کہتے ہیں کہ اگر لوگ رمضان کے روزے نہ رکھتے، اس کی سختیاں برداشت نہ کرتے تو اس قدر عید کی خوشی بھی کسی کو نہ ہو سکتی تھی۔ عید آنے پر سب ہی خوش ہیں۔ فقیر بھی، بادشاہ بھی، اور وزیر بھی خوش ہیں۔ ہم نے جو عید پر دیکھا وہ میاں نظیر سچ ہی ہے کہ ایسی خوشی تو نہ شب برأت کی ہوتی ہے اور نہ بقرعید کی خوشی ہوتی ہے، جیسی آج سب کے دل میں اس عیدالفطر کی خوشی ہو رہی ہے۔

سوالات و جوابات

سوال 1:- نظم “عیدالفطر” کس نے لکھی؟

جواب:- نظیر اکبر آبادی نے لکھی۔

سوال 2:- عید کے دن نہانے کی دھوم کب ہوتی ہے؟

جواب:- صبح ہونے سے پہلے ہی سب کو نہانے کی سمجھتی ہے۔

سوال 3:- پیروں جواں اور لڑکوں کو کس بات کی خوشی تھی؟

جواب:- بوڑھوں اور جوانوں کو طرح طرح کی چیزیں کھانے کی تمنا ہو رہی تھی اور لڑکوں کو عیدگاہ جانے کی بے قراری ہو رہی تھی۔

سوال 4:- عید کے دن کون لوگ شاد ہوتے ہیں؟

جواب:- عید کے دن بھکاری، بادشاہ، وزیر اور روزہ رکھنے والے سبھی خوش ہوتے ہیں-

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی