فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں

0

نظم کی تشریح

یہ نظم علامہ اقبال کے دوسرے شعری مجموعے بال جبریل میں شامل ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے حضرت آدم علیہ السلام کی فطری صلاحیتوں کو فرشتوں کی زبان سے بیان کیا ہے۔چونکہ اقبال کے فلسفہ کا بنیادی تصور آرزوئے کمال ہے اس لیے انہوں نے اپنی تصانیف میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور ان کے ہبوط کی داستان کے ضن میں اسی حقیقت کو مختلف طریقوں سے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں اسی لیے بھیجا کہ وہ اپنی خودی کو مرتبہ کمال تک پہنچا سکے۔

یہاں اس نظم میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ پاک نے چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا ہے اس لیے انہیں وہ تمام صفات عطا فرمائیں جو اس منصب رفیع کے لئے ضروری ہیں۔آدم علیہ السلام جب اس دنیا میں ظاہر ہوئے تو اس وقت وہ شعور اور ادراک کی ابتدائی منزلوں میں تھے لیکن ان کے اندر ترقی کے لامحدود امکانات پوشیدہ تھے، اقبال نے اس نظم میں انہی کی وضاحت کی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:

عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی

اللہ پاک نے انسان کے اندر جذبۂ عشق عطا فرما دیا ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق کو ہر لحظہ بیتاب اور بے قرار رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان ہر وقت محبوب کی تلاش میں مصروف رہتا ہے۔

سُنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن
ِتِری سرشت میں ہے کوکبی و مہ تابی

اللہ پاک نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے لیکن اس کا جوہرِ حیات یعنی روح خاکی نہیں ہے بلکہ روحانی یا نورانی ہے اسی لئے اس میں تابندگی اور درخشندگی کی صفت پائی جاتی ہے۔

جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تِری شُکر خوابی

اللہ پاک نے انسان کو ممبع حُسن وجمال بنایا ہے یعنی اس کی ذات میں ہر قسم کی خوبیاں پوشیدہ ہیں۔ اب یہ اس کا فرض ہے کہ اتباع شریعت کی بدولت ان کو بروئے کار لا کر مرتبہ کمال پر فائز ہو جائے۔
واضح ہوا کے اس شعر کا مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے:”لقد خلقنا الانسان في احسن تقويم” بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔

اس شعر کی ایک دوسری تشریح بھی ہو سکتی ہے:
اے انسان خدا نے تجھے وہ کمالات عطا کیے ہیں کہ اگر تو ان کا جلوہ خواب میں بھی دیکھ لے تو تیری میٹھی نیند ہزار بیداریوں پر بھی فوقیت لے جائے۔

گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
ِاِسی سے ہے تِرے نخل کہن کی شادابی

اے انسان صبح کے وقت تیرا خدا کی بارگاہ میں رونا وگریہ وزاری کرنا بہت بیش قیمت چیز ہے۔ اسی گریہ وزاری کی برکت سے تیری زندگی کا پرانا درخت شاداب اور تروتازہ رہتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو عشق کی دولت عطا فرمائی ہے کیونکہ اسی جوہر کی بدولت اس کی شخصیت (نخل کہن) کی تربیت اور تکمیل ہو سکتی ہے۔

تِری نوا سے ہے بے پردہ زِندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فِطْرت نے کی ہے مضرابی

تیرے ہی نغمے سے زندگی کے ضمیر کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے اور قدرت نے تیرے ہی ساز کو اپنی مضراب سے بچایا ہے یعنی تیرے کمالات کی نمائش کے لیے قدرت نے جو انتظام اور ہتمام کیے، وہ کسی دوسرے وجود کے لیے نہ کیے گئے۔