• کتاب” اردو گلدستہ “برائے ساتویں جماعت
  • سبق نمبر13:نظم
  • شاعر کا نام:عصمت جاوید
  • نظم کا نام: ننھی بوند کا حوصلہ

نظم ننھی بوند کا حوصلہ کی تشریح

ایک بار ایسا ہوا برسات میں
سرد، لمبی گھپ اندھیری رات میں
ایک ننھی بوند آنکھیں میچتی
ہچکچاتی سانس اندر کھینچتی

یہ اشعار عصمت جاوید کی نظم “ننھی بوند کا حوصلہ” سے لیے گئے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کا موسم تھا اور ایک مرتبہ یوں ہوا کہ برسات کی اس سرد لمبی اور گھپ اندھیری رات میں ایک ننھی سی بوند اپنی آنکھیں میچے ہوئے تھی۔ یہ بوند ہچکچاہٹ کا شکار تھی اور اندر ہی اندر اپنی سانس روکے ہوئے تھی۔

چھوڑ کر بادل کا پہلو جب چلی
دل ہی دل میں سوچ کر ڈرنے لگی
یہ بھیانک رات اور لمبا سفر
راستہ بھی کچھ نہیں آتا نظر

شاعر کہتا ہے کہ وہ بوند جب بادل کو چھوڑ کر اپنے سفر کی طرف بڑھنے لگی تو وہ اپنی اگلی منزل کو دل ہی دل میں سوچ کر ڈر رہی تھی یہ بھانک اور گہری رات ہے اور سفر بھی بہت طویل ہے۔ اس اندھیری رات میں کوئی راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔

کیا بھروسہ آگ میں گر جاؤں میں
پر نہ کچھ اپنا پتا بھی پاؤں میں
یہ بھی ممکن ہے ملوں میں خاک میں
موت بیٹھی ہو نہ میری تاک میں

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ بوند کو یہ فکر تھی کہ ہو سکتا کہ اس اندھیری رات میں کہیں میں آگ میں نہ گر جاؤ۔ جس کی وجہ سے پھر میں اپنا پتا بھی نہ پا سکوں یا یہ بھی ممکن ہے کہ میں خاک میں مل جاؤں اور کہیں موت بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہو۔

اس نے پھر سوچا کہ قسمت کا لکھا
جو بھی ہوگا سامنے آجائے گا
سوچ کر انجام اپنا کیوں ڈروں
ڈر کے میں مرنے سے پہلے کیوں مروں

شاعر کہتا ہے کہ یہ تمام باتیں سوچنے کے بعد اس ننھی بوند نے اپنا حوصلہ بلند کیا اور اس نے سوچا کہ جو قسمت میں لکھا ہو گا وہ سامنے آ کر رہے گا۔ تو میں اپنا انجام سوچ کر کیوں خوفزدہ ہوں۔ اپنے خوف کی وجہ سے تو میں مرنے سے پہلے ہی مر جاؤں گی۔

کیا ضروری ہے گروں میں ریت پر
یہ بھی ممکن ہے گروں میں کھیت پر
خار پر گرنے سے مجھ کو کیوں ہراس؟
یہ بھی ممکن ہے بجھاؤں اس کی پیاس

شاعرکہتا ہے کہ اس بوند نے سوچا کہ ضروری تو نہیں کہ میں ریت پہ گروں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ میں کسی کھیت میں گروں گا۔جبکہ میں کسی کانٹے پر گرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہوں یہ بھی تو ممکن ہے کہ کانٹے پر گر کر میں اس کانٹے کی پیاس بجھانے کا سبب بن جاؤں۔

بوند نے چھوڑا خدا پر فیصلہ
اس کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا
ہوکے بے پروا خوشی میں جھومتی
آ گئی دریا پہ اس سے جا ملی
تھی اسی دریا میں اک سیپی کھلی
بوند اس میں جا گری موتی بنی

شاعر کہتا ہے کہ اس ننھی بوند نے اپنا فیصلہ اللہ کی ذات کے سپرد کردیا جس سے اس کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا۔اور وہ بے پروا ہو کر خوشی سے جھومتی ہوئی زمین کی جانب بڑھی۔وہ بوند آسمان سے دریا پہ گری اور اس میں جاملی۔ قدرت کا کرشمہ کہ اسی وقت اس دریا میں ایک سیپ کھلی ہوئی موجود تھی۔ بوند کے اس میں گرتے ہی وہ بوند موتی میں بدل گئی۔
یوں شاعر نے اس نظم کے ذریعے اللہ کی ذات کے گرد معملات کی سپردگی اور اللہ پاک کے بہترین فیصلے کو دکھایا ہے۔

سوالات:

ننھی بوند بادل کے پہلو سے نکل کر کیوں ڈر رہی تھی ؟

ننھی بوند برسات کی گھپ اندھیری رات ہونے کی وجہ سے خوفزدہ تھی۔ کہ کیا بھروسہ میں آگ میں گر جاؤں یا موت میری تاک میں ہو۔

ننھی بوند نے کیا سوچ کر اپنا حوصلہ بڑھایا؟

ننھی بوند نے سوچا کہ جو قسمت کا لکھا ہو گا وہ سمانے آ جائے گا اپنا انجام پہلے سے سوچ کر ڈر ڈر کر کیوں مروں۔ پھر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ننھی بوند کا حوصلہ بڑھا۔

حوصلہ پیدا ہونے پر اس کی کیا کیفیت ہوئی؟

حوصلہ پیدا ہوئے پر ننھی بوند بے پروا جھومتی ہوئی زمین کی طرف بڑھی۔

ننھی بوند کا انجام کیا ہوا؟

ننھی بوند دریا میں گر کر سیپ کے موتی میں تبدیل ہو گئی۔