نظم یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ کی تشریح، سوالات و جوابات

  • کتاب” ابتدائی اردو” برائے چوتھی جماعت
  • سبق نمبر14: نظم
  • شاعر کا نام: جوش ملیح آبادی

نظم یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ کی تشریح

مہکتے ہوۓ پھول کے پاس آؤ
لچکتی ہوئی شاخ پر بیٹھ جاؤ
ہوا میں کبھی اڑ کے بازو ہلاؤ
کبھی صاف چشموں میں غوطہ لگاؤ
یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ

یہ اشعار جوش ملیح آبادی کی نظم ‘یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ’ سے لیا گئے ہیں۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے چڑیوں مہکتے ہوئے پھولوں کے پاس آؤ اور آ کر اس لچک والی شاخ پہ بیٹھ جاؤ۔ کبھی تم ہوا میں اڑو اور اڑتے ہوئے اپنے بازو یعنی پر ہلاؤ اور کبھی اسی مستی میں تم چشموں میں غوطے لگاؤ۔ یہ مستیا ں کرتے ہوئے اے پیاری چڑیوں تم ایسے ہی گاتی رہو۔

پھدک کر ادھر سے ادھر دور جاؤ
چہک کر ادھر سے ادھر پر ہلاؤ
چمک کر کبھی شاخ پر چہچہاؤ
اچھل کر کبھی نہر پرگنگنا ؤ
یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے چڑیوں تم ادھر سے ادھر ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدک کر جاؤ۔ ادھر اُدھر تم چہکتی پھرو اور اپنے پر ہلاتی رہو۔ کبھی تم چہک کر ایک شاخ پہ بیٹھو اور کبھی چہچہاتی ہوئی دوسری شاخ تک جاؤ۔ اے پیاری چڑیوں تم اچھل کر نہروں پہ گنگناتی رہو اور ایسے ہی اپنے سریلے گیت گاتی رہو۔

کبھی برگ تازہ کو منہ میں دباؤ
کبھی کنج میں بیٹھ کر پھڑ پھڑاؤ
کبھی گھاس پر لوٹ کر دل لبھاؤ
کبھی جا کے بیلوں کو جھولا جھلاؤ
یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے چڑیوں کبھی تو تم تازہ پتیوں کو اپنے منھ میں دبا لو اور کبھی کسی کونے میں بیٹھ کر پھڑ پھڑاؤ۔ کبھی مستی کے انداز میں تم گھاس پہ لوٹتی پھرو اور ہمارے دلوں کو لبھاؤ اور کبھی جا کر بیلوں پہ بیٹھ جاؤ اور انھیں جھولا جھلاؤ۔یعنی ہر انداز سے یہ چڑیاں ہمارے اردگرد کی رونق بڑھاتی ہیں۔اے پیاری چڑیوں تم یونہی گاتی رہو۔

میں بے تاب ہوں مجھ کو جلوہ دکھاؤ
میں گمراہ ہوں مجھ کو رستہ بتاؤ
نہ جھجکو نہ سہمو نہ کچھ خوف کھاؤ
مرے پاس آؤ مرے پاس آؤ
یونہی پیاری چڑیو! ابھی اور گاؤ۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے پیاری چڑیوں میں بہت بے تاب ہوں آؤ اور آ کر مجھے اپنے جلوے دکھاؤ میں گمراہ ہوں مجھے سیدھے رستے کی رہنمائی کرو۔ مجھے کچھ بتاتے ہوئے تم ہر گز نہ جھجکو۔ میرے قریب آنے سے تم کسی طرح کا خوف دل میں نہ رکھو اے پیاری چڑیوں میرے پاس آ جاؤ اور اپنے سریلے گیت یونہی گاتی رہو۔

سوچیے بتائیے اور لکھیے۔

چڑیاں باغیچوں میں کیا کیا کر رہی ہیں؟

چڑیاں باغیچوں میں چہک رہی ہیں وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پہ پھدکتی ہیں اور چشموں میں غوطے لگاتی ہیں۔

اس نظم کے دوسرے بند میں شاعر نے چڑیوں کے پھد کنے اور چہکنے کا ذکر کیسے کیا ہے؟

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ چڑیاں جو اِدھر اُدھر پھدک رہی ہیں یہ کبھی نہر پہ اچھل کر گنگناتی ہیں اور کبھی شاخوں کی رونق کو بڑھاتی ہیں۔

چڑیاں گھاس کے تنکوں کو منہ میں دبا کر ادھر سے ادھر لے جاتی ہیں ۔ ان تنکوں سے وہ کیا کرتی ہیں؟

چڑیاں گھاس کے ان تنکوں سے گھونسلہ بناتی ہیں۔

نظم کے تیسرے بند کا مطلب اپنے الفاظ میں لکھیے۔

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اے چڑیوں کبھی تو تم تازہ پتیوں کو اپنے منھ میں دبا لو اور کبھی کسی کونے میں بیٹھ کر پھڑ پھڑاؤ۔ کبھی مستی کے انداز میں تم گھاس پہ لوٹتی پھرو اور ہمارے دلوں کو لبھاؤ اور کبھی جا کر بیلوں پہ بیٹھ جاؤ اور انھیں جھولا جھلاؤ۔یعنی ہر انداز سے یہ چڑیاں ہمارے اردگرد کی رونق بڑھاتی ہیں۔اے پیاری چڑیوں تم یونہی گاتی رہو۔

نیچے لکھے ہوۓ مصرعوں میں خالی جگہ کو صحیح لفظوں سے پر کیجیے:

  • لچکتی ہوئی شاخ پر بیٹھ جاؤ
  • چمک کر کبھی شاخ پر چہچہاؤ
  • کبھی برگ تازہ کو منہ میں دباؤ
  • کبھی کنج میں بیٹھ کر پھڑ پھڑاؤ
  • میں بے تاب ہوں مجھ کو جلوہ دکھاؤ

ان لفظوں سے جملے بنائے اور خالی جگہوں میں لکھیے :

شاخ باغ میں چڑیاں ایک شاخ سے دوسری شاخ پہ پھدک رہی تھیں۔
چشمہ جنگل میں قدرتی چشمہ بہہ رہا تھا۔
نہر ہم نہر کے پانی سے اپنی فصلوں کو سیراب کرتے ہیں۔
گھاس بکری گھاس پھوس کی شوقین ہوتی ہے۔
رستہ باغ کا رستہ پھولوں سے لدا ہوا تھا۔

نیچے لکھے ہوۓ محاوروں کا صحیح مطلب، دیے ہوۓ باکس سے چن کر لکھیے اور جملوں میں استعمال کیجیے:

دل لبھانا دل کو کھینچنا شملہ کے خوبصورت مناظر دل کو لبھانے والے ہیں۔
جلوہ دکھانا نظر آنا آج کی محفل میں نامور گلوکار اسٹیج پر جلوہ دکھانے والے ہیں۔
خوف کھانا ڈرنا ہمیں روز محشر سے خوف کھانا چاہیے۔

ان مصرعوں کو صحیح کر کے لکھیے :

  • ہلاؤ کبھی اڑ کے بازو ہوا میں
  • ہوا میں کبھی اڑ کے بازو ہلاؤ
  • لگاؤ کبھی صاف چشموں میں غوطہ
  • کبھی صاف چشموں میں غوطہ لگاؤ
  • ادھر سے ادھر دور جاؤ پھدک کر
  • پھدک کر ادھر سے ادھر دور جاؤ
  • نہر پر گنگناؤ اچھل کر کبھی
  • اچھل کر کبھی نہر پرگنگنا ؤ

ہر لفظ کو اس کے صحیح خانے میں لکھیے :

مذکر : جھولا، جلوہ، بازو، پھول، چشمہ ، منہ،رستہ، دل ، بیل۔
مونث : ہوا ، گھاس ، چڑیا ، شاخ ، نہر ، برگ، مہک۔

بے تاب کے معنی ہیں’ بے چین ، یہ دولفظوں ‘ بے اور تاب سے مل کر بنا ہے۔ آپ بھی دیے ہوۓ لفظوں کے ساتھ بے جوڑ کر نئے لفظ بنائیے :

وفا بے وفا
اثر بے اثر
وقت بے وقت
ایمان بے ایمان
قدر بے قدر
پناہ بے پناہ
وجہ بے وجہ
عزت بے عزت
بنیاد بے بنیاد
مزہ بے مزہ