نقاد کا منصب یا فرائض

0

نقاد کے فرائض یا منصب مندرجہ زیل ہیں۔

تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنا:

نقاد فن پاروں کا مطالعہ کرکے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ادب کیا چیز ہے ؟ یہ زبان کی دوسری صورتوں اور اظہار و بیان کی دیگر قسموں سے کس طرح مختلف ہے؟ اور فنون لطیفہ میں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ نقاد کا کام چونکہ تجزیاتی ہوتا ہے اس لئے وہ ادب کی ماہیت معلوم کرنے کے لئے دیگر علوم سے بھی مدد لیتا ہے۔

ارسطو وہ پہلا نقاد ہے جس نے اپنی شہر آفاق کتاب ”بوطیقا“ کی شکل میں سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس نے فلسفیانہ انداز میں ادب کی ماہیت سے متعلق حقائق دریافت کئے ہیں۔ اور استقرائی طریق کار اختیار کرکے اکثر فن پاروں میں مشترک خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ کولرج کے نزدیک بھی تنقید کا منصب فلسفیانہ ہے۔ وہ کہتا ہے:
” تنقید کا آخری مقصد دوسروں کی تخلیقات کا محاکمہ کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کے اصول دریافت کرنا ہے۔“
اس منصب کے مطابق ایک نقاد فن کو معروضی نقطہ نظر سے دیکھ کر ایک سائنس دان کی طرح اس کے عناصر ترکیبی معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔

فن کار کے لئے درس و ہدایت:

تنقید فن کو سنوارتی ہے اور فنکار کی رہنمائی اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ نقاد اپنے تجربات سے فن کار میں تخلیق کا بہتر شعور اور فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرکے ان میں صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے۔ وہ مصنف کی تضحیک نہیں اڑاتا اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری کرتا ہے بلکہ اسے فنکار سے ایک گونہ ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد فنکار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور اصلاح پیش نظر ہوتی ہے۔

تخلیقی تجربے کی باز آفرینی:

نقاد ایک لحاظ سے تخلیقی بھی ہوتا ہے۔ اس کی تنقید میں فن کار کے تخلیقی تجربے اور عمل کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ جب وہ کسی فن پارے کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو وہ صرف فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اس تخلیق سے بہرہ مند ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ مصنف نے اپنے فن پارے کو کن جذبات و احساسات اور حالات و واقعات کے تحت تخلیق و تشکیل کی صورت عطا کی ہے۔ کن الفاظ اور کس انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے۔ یہی احساس نقاد کو ایک گونہ مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ اور وہ قارئین کو بھی اپنی مسرت میں شریک کرنے کی سعی کرتا ہے۔

بقول آرنلڈ: ” قوت تخلیق سے بہر مندی کا احساس بڑا مسرت افزاء اور صحت بخش ہوتا ہے اور ایک کامیاب نقاد جو زندہ دل مصلح ہوتا ہے اس سے یقیناً محروم نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے اس احساس مسرت میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔“
گویا نقاد فنکار کے خواب کی بھی تشریح و تعبیر بیان کرتا ہے اور کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

تخلیق فن کے لئے سازگار فضا پید ا کرنا:

بقول آرنلڈ نقاد کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ” اعلیٰ و ارفع افکار و خیالات حاصل کرکے ان کی ترویج و اشاعت کرے۔“ اس عمل سے وہ معاشرے میں ایسے عنصر پیدا کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا جو تخلیقی ذہن کو جلا بخش کر تخلیق فن کا موجب بنیں گے اور اس طرح معاشرے کے لئے درس و ہدایت کا سامان فراہم کرے گا جس سے معاشرے میں اچھی صحت مند روایات قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح تنقید ادب معاشرتی اصطلاح کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گی اور نقاد کو ایک مصلح اور معلم اخلاق کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا جو والٹ وٹیمن کے نزدیک تنقید کی رفعت اور نقاد کا اعلیٰ و ارفع نصب العین ہے۔

فن پاروں کی تشریح و توضیح:

بقول ایلیٹ ”تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔“ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس کی اثر انگیزی سے بڑا متاثر ہوتا ہے۔ اور یہی وہ فنی تاثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ کومز لکھتا ہے کہ:
”ایک اچھا نقاد ، جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے، اپنے سوچے سمجھے تاثر کو جو اس نے کسی مصنف، کسی ڈرامے، کسی ناول ، کسی نظم، کسی مضمون وغیرہ سے حاصل کیا ہوتا ہے ممکن اور واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح فن پارے کی اس تفہیم اور لطف اندوزی کے عمل میں مدد بہم پہنچاتا ہے جو اسے تجربے سے حاصل ہوتی ہے ، جو فن پارے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور اس کی پرکھ تول کر کے ان عناصر کا انکشاف کرتا ہے جنہوں نے مل کر اس فن پارے کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔“

ڈیوڈ ڈایشز بھی لکھتاہے کہ:
” نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے۔ تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اُٹھائے تو فن کی مختلف طریقوں سے شرح و بسط کرکے قاری کی تحسین فن میں اضافہ کر دیتا ہے۔“

مختصراً تشریحی نقاد فن پارے کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو واضح کرتا ہے اور یوں وہ اس سے پیدا ہونے والے لطف و سرور کا ابلاغ کرتا ہے اور قارئین کو زندگی سے متعلق شعور عطا کر تا ہے۔

معائب و محاسن کو بیان کرنا:

ٹی ۔ ایس ۔ایلیٹ کے خیال کے مطابق ” جہاں تنقید کا منصب فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین ، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کا کام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان ( ذوق ادب) کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے۔ “ اور ایڈسن کے خیال میں ”ایک سچا نقاد کسی ادیب یا کسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“

ہڈسن لکھتا ہے کہ ” اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریح حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“ ان نقادوں کی آرا سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کوبھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔

شاعروں کو دوبارہ زندہ کرنا:

ٹی۔ایس ۔ ایلیٹ کے خیال میں تنقید کا ایک منصب ان شاعروں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شہرت اس کی چند ایک نظموں کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کی شاعری میں اس کے فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے جواس کی شہرت دوام کا موجب نہیں بن سکتی۔ ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں کو ازسرنو زندہ کرے۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے، ہو سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کوعلم نہ ہو۔

تنقید روح عصر کی عکاس :

ڈرائیڈن اور شیگل کا خیال ہے کہ شاعر روح عصر ( ماحول اور زمانہ ) کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں اس کی نسل و قوم کو بھی دخل ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گویا ادب اس طرح روح عصر کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نقاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت ان تمام عوامل (نسلی ، سماجی، سیاسی، واقعاتی) کا جائزہ لے جو کسی عصر (دور) کا مزاج متعین کرتے ہیں اور فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

تنقید اور ادب کے نامیاتی عمل کا شعور:

بقول ایلیٹ ، ” ہر ملک کا ادب ایک عضویاتی کل کی طرح ہوتا ہے اور زندہ شے کی طرح نشوونما پاتا ہے۔ “ اس کے مطا بق ”ہر شاعر کو ادب سے متعلق اس حقیقت کا کامل شعور ہونا چاہیے جب وہ حقیقی تخلیق کر سکتا ہے۔ نقاد اس زندہ روایت کے حوالے سے ہر ادیب اور فن پارے کا جائزہ لیتا ہے۔ “ مطلب یہ کہ نقاد کا فرض بنتا ہے کہ ادب کے اس تصور کو خود حاصل کرے اور پھر قارئین کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف قارئین کے عام تصور ادب کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ تخلیقی فن کاروں کے لئے بھی یہ تصور علم و ہدایت اور اصلاح و رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور وہ خود کو اور اپنے فن کو ادب کی اس زند ہ روایت کی روشنی میں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

ان تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اور ذہن تیز ہو ، عدل سے کام لے، تعصب جانبداری سے کام نہ لے ، جذبات سے بالاتر ہو کر بے لاگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ رائے متوازن معیاری اور صحت مند سمجھی جائے۔ وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانتداری سے بجالائے تاکہ فن کا معیار بلند ہو ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں اضافہ ہو۔ وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غلام نہ بنے۔ اس کے علاوہ اسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے ورنہ اس کے تاثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔

تحریر محمد ذیشان اکرم