Advertisement
Advertisement
نہیں ہے مجھ سے تعلق کوئی تو ایسا کیوں
کہ تو نے مڑ کے فقط اک مجھی کو دیکھا کیوں

میں اس سفر میں کہیں بھی نہ رکنے والا تھا
یہ اک درخت مرے راستے میں آیا کیوں

گزشتہ شام و سحر یاد کیوں نہیں آتے
ہوائے وقت مجھے تو نے اتنا بدلا کیوں

میں اجنبی تو نہ تھا شہر آرزو کے لیے
تمام عمر رہا پھر یہاں اکیلا کیوں

مری ان آنکھوں کو کب روشنی سے نسبت تھی
ازل سے میرے تعاقب میں ہے اندھیرا کیوں

غرورِ تشنہ لبی بھی نہیں رہا باقی
سراب دیکھ کے آیا خیال دریا کیوں

طویل ہونے لگیں پھر اسی طرح راتیں
خطا یہی تھی کہ قصہ وفا کا چھیڑا کیوں

Advertisement
Advertisement