Back to: گل افشاں ناز
چلے بھی آؤ کہ شام ڈھلنے کو ہے چلے بھی آو کہ کچھ بات کہنے کو ہے دست سی ویرانی چھائی ہے اس دل میں آ بھی جاؤ کہ کوئی طوفان اٹھنے کو ہے غبار ہی غبار ہے دل میں کچھ دیکھتا نہیں لگتا ہے آ ج محفلیں شمع میں پروانہ جلنے کو ہے کاش دلِ مضطرب کو کوئی بتا دے آ کے اب اس کا رستہ کہیں اور کو ہے |