ڈاکٹر خادم حسین رائے بطور نقاد

0

اردو  کو  اک  رسالہ الہام  دوں ولی
لوگوں کو دورِ ہادی کا عالم عطا کروں

دنیا کا ہر ایک ادب نثر اور شاعری پرمشتمل ہے اس میں وہ تمام اصناف شامل ہوتی ہیں جن کا براہ راست اس ادب کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اردو ادب کے بارے میں مختلف ادبی مؤرخین نے قلم اٹھایا اور اس کی وسعتوں کی پیمائش کرنے کی سعی کی۔ اس حوالے سے رام بابو سکسینہ کی کتاب “تاریخ ادب اردو”، اعجاز حسین کی “مختصر تاریخ ادب اردو”، ڈاکٹر محمد صادق کی “A History of Urdu Literature”، علی جواد زیدی کی “A History of Urdu Literature” ، ڈاکٹر سلیم اختر کی “اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ”، حسن اختر ملک کی “تاریخ ادب اردو” اور ڈاکٹر انور سدید کی”اردو ادب کی مختصر تاریخ” اردو کی معروف تاریخوں میں شمار ہوتی ہیں۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر خادم حسین رائے کا ایک آرٹیکل ہاتھ لگا، جس کا عنوان ہے!
“اردو ادب کی تاریخ” میں بین الشعبہ جاتی مباحث کا تنقیدی تناظر۔
ڈاکٹر خادم حسین رائے گورنمنٹ شاہ حسین کالج لاہور میں صدر شعبہ اردو ہیں اور منہاج یونیورسٹی لاہور میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ادبی حلقوں میں محقق اور نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔مذکورہ آرٹیکل ادبی تاریخ کےحوالے سے چشم کشاء ثابت ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتاب “اردو ادب کی تاریخ: ابتداء سے 1857ء تک کا موازنہ دیگر ادبی تاریخوں کے ساتھ کیا ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین رائے لکھتے ہیں کہ اس سے پہلےجتنی بھی تاریخ ادب پر کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں کسی قدر جھول پایا جاتا ہے۔ وہ کہتےہیں کہ ڈاکٹرجمیل جالبی کی کتاب “تاریخ ادب اردو” کے علاوہ کوئی کتاب ادبی تاریخ کا مکمل احاطہ نہیں کرسکی، ڈاکٹر جمیل جالبی کےبعد ڈاکٹرتبسم کاشمیری ہی وہ واحد نام ہےجس نے ادبی تاریخ کو جدید تصورات سے روشناس کیا۔

اس سے پہلےجتنی بھی ادبی تاریخیں معرض وجود میں آئیں ان میں افراد کے خلاف بیان، اسلوب اور شعوری سطح کے فرق کی وجہ سے توازن اورتسلسل کا فقدان ہے۔ ان تاریخوں میں اس عہدکےسماجی، سیاسی، لسانی اثرات کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن اس کے باوجودیہ تاریخیں اردو ادب کی تاریخ کےمتوازن اور جدید تصور کو پیش نہیں کرتی ہیں۔ڈاکٹرخادم حسین رائے لکھتے ہیں کہ! ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنے تحقیقی مزاج، وسیع مطالعہ، تاریخی شعور اور تنقیدی بصیرت کے ذریعے ادبی تاریخ کے نئے تصورتشکیل دیے ہیں۔ ان میں سماجی علوم، اقتصادیات، دیومالا، سیاسی تاریخ، تہذیبی و ثقافتی عوامل، فلسفہ، نفسیات، لسانیات، تحقیق اور امتزاجی تنقید شامل ہیں۔

ادبی تاریخ نویسی کےان اصولوں کی روشنی میں انہوں نےادبی تاریخ کےسفرکاآغاز کیا ہے۔ اسی دوران انہوں نے کئی طرح کےسوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نےشعبہ جاتی مطالعات کو یکسرمستردکیا ہے اور اس کی جگہ بین الشعبہ جاتی مطالعات(Intera Disciplanry Studies)  پر زور دیا ہے۔ 

وہ لکھتے ہیں کہ:
“جب ہم کسی خاص ادبی دور کا تجزیہ کریں گے تو اپنا تجزیہ محض ادب کے ایک شعبہ تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ ہم اس دور کے سماجی علوم، اقتصادیات، دیومالا، سیاسی تاریخ، تہذیبی و ثقافتی عوامل، فلسفہ اور نفسیات وغیرہ کی روشنی میں  اس عہد کا تجزیہ مکمل کریں گے۔”

ڈاکٹرتبسم کاشمیری ان علوم کو ادبی تاریخ نویسی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادبی مورخ کی رائے ہرصورت معتدل، متوازن مگر حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر خادم حسین رائے کے مطابق ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تحریر میں تنقیدی حصہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی تاریخ میں نفسیاتی تجزیے سامنے آتے ہیں۔ ان میں شعراء ادبی رجحانات اور دبستانوں کے نفسیاتی تجزیے موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتاب میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اس نفسیاتی تجزیےمیں قلی قطب شاہ کی شخصیت کےمرکزی نکتہ کی طرف اشارہ کردیا ہے اور سودا کی حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی کو “سادیت پسندی” سے تعبیر کیا ہے۔ 

ڈاکٹر خادم حسین رائے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹرتبسم کاشمیری نے جس طرح میر تقی میر کی شخصیت کانفسیاتی تجزیہ کیا ہے اور میردرد کی عشق مجازی سے دوری کو ان کی درویشی سے منسوب کیا ہے، لکھنو کے دیگر شعراءنے (انشاء، جرات اور رنگین) کی شاعری کا نفسیاتی تجزیہ کر کے دکھایا ہے یہ صرف انہی کا خاصہ ہے۔

اس کے علاوہ دیگر محققین نے آراء میں اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹرتبسم کاشمیری نے امیرخسرو کو ہندوستانی ادب کامؤجداورانسان کے طورپرپیش کیا ہے۔

ڈاکٹر خادم حسین رائے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری تاریخی بیان میں معروضیت کو ملحوظ رکھتے ہیں، اور مختلف آراء کی روشنی میں متوازن رائےقائم کر کے آگےنکل جاتے ہیں۔ مسائل میں الجھتے نہیں ہیں نہ ہی قاری کو الجھنے دیتے ہیں۔

ڈاکٹر خادم حسین رائے کا خیال ہے کہ اس سے پہلے جتنی بھی ادبی تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں ایہام گوئی کی تحریک کےاسباب کےحوالےسے کوئی بھی مصنف متوازن رائے نہیں دے سکا ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ایہام گوئی کی تحریک کےپیدا ہونےکی سب سے اہم وجہ اس دور کی تہذیبی صورت کوقراردیا ہے:

“محمد شاہی عہد کے تہذیبی اثرات کی وجہ سے معاشرے میں شعریت کے رجحان نے جڑ پکڑ لی تھی اوراس رجحان نے اس پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اس رجحان کے اثرات دلی کی تہذیب میں ذومعنویت کوفروغ دے رہے ہیں جو ایہام جیسی صنعت کے لیے نہایت سازگار فضا بنا رہے تھے۔”

ڈاکٹر خادم حسین رائے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری اپنی تاریخ میں مختلف سطحوں پر زبان کے لسانیاتی اور سماجی اثرات کا ذکرکرتے ہیں وہ زبان کے ارتقائی سفر کا جائزہ بھی پیش کرتے ہیں لیکن کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں ان کے ہاں خالص لسانیاتی یا قواعدی مباحث دیکھے جا سکتے ہیں وہ نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کو لسانیاتی حوالے سے پیش کرتے ہیں نظام کے لیے لسانیاتی ڈھانچہ پربہمنی دور اور بعد ازاں گول کنڈہ اور بیجا پور کے شعراء اپنی شاعری کی بنیاد رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر خادم حسین رائے کے مطابق ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے سابقہ ادبی تاریخوں کے برعکس آتش کی بجائے ناسخ کولکھنؤ کا اصل نمائندہ ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری اس طرح بیان کرتے ہیں: 

“آتش اور ناسخ کے تلامذہ ان کی رونق بڑھاتے تھے لکھنؤ کے ادبی افق پر آتش کی موت کے بعد بھی ان کی شاعری کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ مگر یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ آتش کی نسبت لوگ ناسخ سے زیادہ متاثر نظر آتے تھے۔”

ڈاکٹرخادم حسین رائے کے مطابق ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے سید عابد علی عابد کی رائے سے بھی اختلاف کیا ہے کہ انہوں نے داغ کی لسانی روایت کو اقبال تک پہنچایا ہے ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے بقول “اقبال اس وقت اقبال بن سکا جب اس نے زبان اور طرز ادا کے اس پرانے شعری اسلوب سے نجات حاصل کی، اس کے کئی حوالے دیتے ہیں اور اقبال خود اس کہنہ تصور شعریات کو رد کرتا ہےکہ میں اپنے آپ کو روائتی معنوں میں شاعر نہیں سمجھتا۔

ڈاکٹرخادم حسین رائے کے مطابق ڈاکٹر تبسم کاشمیری جرات اور مومن کےضمن میں بھی اردو ادب کے ناقدین کی آراء سے واضع اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بے شمار نقاد مومن کو جرات کے پیروقرار دیتے ہیں اور اس کی معاملہ بندی اور عشقیہ شاعری کو اوباشوں کی شاعری قرار دیتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اس کاردکیا ہے۔

ڈاکٹر خادم حسین رائےنے مذکورہ بالادلائل کےذریعےثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتاب، “اردو ادب کی تاریخ: ابتدا سے 1857ء تک” ادب کےجدیدتصورات اورمعیارات پرمشتمل ایک مکمل کتاب ہے، جس میں ڈاکٹرتبسم کاشمیری نے بہت سارےنظریات وتصورات کوردکیا ہےاوردلائل کے ساتھ ان کو غلط ثابت کیا ہے، “اردو ادب کی تاریخ” کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ واقعات میں تسلسل برقرار نہیں ہے بلکہ ایک کلیت کا احساس زور پکڑتا ہے۔ ان کےاسلوب کی ایک منفردصورت یہ بھی ہے کہ اس میں فکشن کی طرزپرایک کہانی بیان ہوتی ہے لیکن وہ کہانی کی ایسی صورت نہیں بنتی جو تحریر کےعلمی،تحقیقی اور تنقیدی حسن میں عیب کی صورت پیدا کر دے۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری نےاپنے تخیل، شعور،تنقیدی بصیرت اور واقعہ نگاری کےفن میں مہارت کےپیش نظرنہایت شگفتہ اور بلیغ بنا دیا ہے جس کو پڑھتے ہوئے کسی قسم کی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔

؎  سمجھ میں صاف آجائے فصاحت اس کو کہتے ہیں
اثر ہو  سننے  والے  پر  بلاغت  اس  کو  کہتے  ہیں

تحریر امتیاز احمد