ڈراما کی تعریف ،اقسام،خصوصیات،اجزائے ترکیبی، روایت،ریڈیو ڈراما

0
  • اردو کی ادبی اصناف (ثانوی و اعلیٰ جماعت کے لیے)
  • سبق نمبر02:نثری اصناف

ڈراما کی تعریف

نقل کرنے کا رجحان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ بچے اپنے طور طریقوں میں بڑوں کی نقالی کرتے ہیں۔ وہ کبھی چور سپاہی بنتے ہیں تو کبھی بادشاہ وزیر اور کبھی اپنے گڈے گڑیوں کے ماں باپ۔ نقالی کوفنی ہنرمندی سے پیش کرنے کا نام ڈراما ہے۔ ڈراما کے معنی کر کے دکھانے کے ہیں۔ ڈرامے میں اسٹیج پر موجود کردار، دوسرے لوگوں اور ان کے عمل کی نقالی کرتے ہیں۔

ڈرامے کی اقسام

ڈرامے کی عام طور پر دوقسمیں ہیں۔ ایک المیہ (ٹریجیڈی Tragedy) دوسرا طر بیہ ( کامیڈی ) یونان میں المیے کی روایت پروان چڑھی جب کہ ہندوستان میں طربیے اسٹیج کیے جاتے تھے۔ وہ ڈرامے جن کا انجام غم انگیز اور الم ناک ہو، انھیں المیہ کہا جا تا ہے۔ خوشی اور مسرت پر ختم ہونے والے ڈرامے طربیہ کہلاتے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ المیہ میں طربیہ کے بھی کچھ عناصر ہوں ، ٹھیک اسی طرح طربیہ میں بھی المیہ کے عناصر پائے جا سکتے ہیں۔ المیہ کا مقصد تماشائیوں میں رنج اور ہمدردی کے جذبے کو بیدار کرتا ہے جب کہ طر بیہ اپنے تماشائیوں کو تفریح فراہم کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ڈرامے کی تکمیل صرف لفظوں سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں لفظوں کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتا ہے۔ ڈرامے میں عمل کی بالا دستی ہوتی ہے۔ تحریری ڈراما چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اسٹیج پر عمدگی کے ساتھ نہیں پیش کیا جا سکے تو وہ ایک کمزور ڈراما مانا جائے گا۔ ڈرامے کا اسٹیج سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کے لیے درج ذیل خصوصیات اہم تصور کی جاتی ہیں:

ڈرامے کے خصوصیات

محل وقوع :

اسٹیج ایسی جگہ ( عام طور سے بلند مقام پر ) پر واقع ہونا چاہیے کہ سبھی تماشائی بہ آسانی کرداروں کے حرکت وعمل کو دیکھ سکیں۔

آرائش :

اسٹیج کی سجاوٹ ڈرامے کے موضوع کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر ڈراما المیہ ہے تو اس کی سجاوٹ مختلف ہوگی اور اگر طر بیہ ہے تو مختلف۔

روشنی :

اسٹیج پر روشنی اتنی ضرور ہونی چاہیے کہ تمام تماشائی کرداروں کے حرکت وعمل کو بخوبی دیکھ سکیں۔ خاص طور سے کرداروں کے میک اپ اور ان کے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات کو۔

ناظرین :

ڈرامے کے لیے ناظرین کی حیثیت ناگزیر ہے۔ اگر ناظرین اسٹیج کی جانب توجہ رکھیں تو ڈرامے کے کرداروں پر اس کا اچھا اثر پڑتا ہے اور ان کی اداکاری زیادہ جاندار اور حقیقی ہو جاتی ہے۔

ڈرامے کے اجزائے ترکیبی:

ڈرامے کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں : • پلاٹ کردار • مکالمہ ه مکالمه • پیشکش۔

پلاٹ:

ڈرامے کا پلاٹ زندگی اور انسانی فطرت سے اخذ کیا جا تا ہے۔ ڈرامے کا پلاٹ نہ تو ناول کی طرح بہت طویل ہوتا ہے اور نہ ہی افسانے کی طرح مختصر۔ ڈرامے کا پلاٹ اس بات کو دھیان میں رکھ کر تیار کیا جا تا ہے کہ اسے ایک طے شد ہ مدت میں اسٹیج پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ ڈرامے میں فکشن کی اصناف کی طرح تخیلی، ماورائی اور مجرد تصورات کی پیش کش کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ واقعات جتنے زیادہ عمل پر مبنی ہوں گے، پلاٹ اتنا ہی زیادہ مؤثر ہوگا۔ عام طور سے کامیاب پلاٹ کے لیے آغاز ، کشمکش ، تصادم اور انجام کو اہم سمجھا جاتا ہے۔

آغاز :

ڈرامے میں ناول یا افسانے کی طرح تعارف اور تمہید کی گنجائش نہیں ہوتی اس لیے اس کا آغاز اتنا پر زور ہونا چاہیے کہ تماشائی پوری طرح اسٹیج کی طرف متوجہ ہو جائیں اور کردار و واقعات سے ان کی اجنبیت فورا دور ہو جائے۔

کشمکش :

کشمکش ڈرامے میں وہ صورت حال ہے جب دو کر دار با دوقوتیں برتری کے لیے آپس میں الجھ جائیں اور یہ اندازہ کرنا محال ہو کہ فتح کس کی ہوگی۔ کشمکش کو ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ کشمکش کبھی دو یا دو سے زیادہ کرداروں کے درمیان اور کبھی دونظریوں کے بیچ ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کشمکش خود کسی کردار کے اندر رونما ہو۔ کشمکش سب سے زیادہ ناظرین کے احساسات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر توجہ ڈرامے پر مرکوز کر دیتے ہیں اور یہی ڈرامے کی کامیابی ہے۔

تصادم :

کشمکش کا منطقی نتیجہ تصادم کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کشمکش میں مصروف دونوں قوتوں کے درمیان ایک فیصلہ کن ٹکراؤ ہوتا ہے۔ المیہ میں مرکزی کردار زوال کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس طربیہ کے مرکزی کردار فتح اور خوشگوار زندگی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔

نقطۂ عروج :

کشمکش اور تصادم سے ایک ایسے تناؤکی صورت پیدا ہوتی ہے جسے ڈرامے کے نقطہ عروج کانام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی ڈراما اپنے انجام کی طرف بڑھتا ہے۔

انجام :

المیہ ڈرامے کا انجام رنج والم پر ہوتا ہے جب کہ طربیہ میں مسرت اور شادمانی پر۔

کردار :

ڈرامے میں کردار نگاری کے فن کو بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ کلاسیکی ڈراموں میں ہیرو یعنی (مرکزی کردار ) ہیروئن اور ولین کی واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ضمنی کردار ہوتے ہیں جو ڈرامے کے مرکزی خیال کی پیش کش میں معاون ہوتے ہیں ۔ ڈراما انھی کرداروں کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ ڈرامے کی مقبولیت کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی کردار زیادہ بااثر اور دلچسپ ہو۔ مرکزی کردار کے علاوہ ڈرامے میں ضمنی کرداروں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

پیش کش:

پیش کش کا تعلق اسٹیج سے ہے۔ ڈرامے کے موضوع کے لحاظ سے اس کے مختلف لوازمات کا تعین کیا جا تا ہے۔ ان لوازمات ( روشنی ، موسیقی ، پوشاک، مناظر ، اشیا کو زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کرنے پر ڈرامےکی کامیابی کا انحصار ہے۔

مکالمہ:

ڈرامے کا واقعہ کرداروں کی آپس کی گفتگو یا مکالمے کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ کردار جس ماحول سے آتے ہیں۔ ان کی زبان ماحول کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ڈرامے میں کردار کے سماجی ، سیاسی ، تاریخی اور تہذیبی پس منظر کا لحاظ رکھتے ہوۓ ہی ان کے مکالمے لکھے جاتے ہیں۔ برجستہ اور فطری مکالموں کو اچھے ڈرامے کی پہچان بتایا جاتا ہے۔ مکالموں کو طویل نہیں ہونا چاہیے۔

اردو میں ڈرامے کی روایت:

ڈراما دنیا کی قدیم ترین ادبی اصناف میں سے ہے۔ ڈرامے کا آغاز یونان سے ہوا۔ ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا کی تشکیل منظوم ڈرامے کی روایت کے پس منظر میں کی تھی۔ ہندوستان میں بھی ڈرامے کی روایت نہایت قدیم ہے۔ بھرت منی کی ” ناٹیہ شاستر ڈرامے کے فن اور اصول سے متعلق ہندوستان کی پہلی اہم کتاب ہے۔کالی داس کے سنسکرت ڈرامے ‘شکنتلا کا شمار دنیا کے شاہکار ڈراموں میں ہوتا ہے۔

ہندوستان میں عوامی ڈرامے اور اس کی مختلف شکلیں مثلا جاترا، لیلا، رہس اور ٹوٹکی کی روایت بہت پرانی ہے۔ امانت کی اندرسبھا، سے اردو سٹیج ڈرامے کی روایت کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ کے قیصر باغ میں ڈراما اسٹیج کیا جاتا تھا۔ خود نواب واجد علی شاہ بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور راجا اندر کا کردار نبھاتے تھے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں نفع کمانے کی غرض سے کچھ پاری نو جوانوں نے انگریزی اسٹیج کے طرز پر دہلی ، کلکتہ اور ممبئی میں تھیٹریکل کمپنیاں قائم کیں ۔ پارسی تھیٹریکل کمپنیوں نے اردو ڈرامے کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں سیٹھ پسٹن جی فرام جی کی اور یجنل تھیڑیکل کمپنی کو اولیت حاصل ہے۔مشہور ڈراما نگار رونق بنارسی کا تعلق اسی کمپنی سے تھا۔ بلبل پیار ان کا معروف ڈراما ہے۔ خورشید بی بالی والا کی وکٹوریہ ناٹک کمپنی نے بھی ڈرامے کے فروغ میں حصہ لیا۔

خورشید بھی خود بھی مشہور اداکار تھے۔ منشی بنا یک پرشاد طالب بنارسی اس کمپنی کے با قاعدہ ڈراما نگار تھے جنھوں نے وکرم ولاس‘ اور ’ہریش چندر وغیرہ ڈرامے لکھے۔ وکٹوریہ کمپنی کے مقابلے میں کاؤس جی نے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی قائم کی ۔ سید مہدی حسن ، احسن لکھنوی اور پنڈت نرائن پرشاد بیتاب اس سے وابستہ اہم ڈراما نگار تھے۔ بھول بھلیاں ، بکاؤلی، چلتا پرزہ احسن لکھنوی کے اور قتل نظیر ، مہا بھارت ، فریب محبت ، گورکھ دھندا وغیرہ بیتاب دہلوی کے اہم ڈرامے ہیں۔الفریڈ کمپنی کے طرز پر ایک اور ناٹک کمپنی نیو الفریڈ قائم کی گئی۔

اردو کے ممتاز ڈراما نگار آغا حشر کاشمیری اس سے وابستہ تھے۔ انھوں نے بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے جن میں شہید ناز ، اسیر حرص ، صید ہوں ، رستم و سهراب ، تر کی حور خوبصورت بلا ، سفید خون ، یہودی کی لڑکی اور سلور کنگ بہت مشہور ہوۓ۔1922 میں امتیاز علی تاج کا ڈراما ‘انارکلی’ شائع ہوا جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعد کے ڈراما نگاروں میں حکیم احمد شجاع ، ڈاکٹر عابد حسین ، محمد مجیب، اشتیاق حسین، محمد عمر، نور الہی ، اوپندر ناتھ اشک، کرشن چندر، عصمت چغتائی ، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، حبیب تنویر محمد حسن، ابراہیم یوسف، زاہدہ زیدی وغیرہ شامل ہیں۔

ریڈیو ڈراما:

ریڈیو ڈراما دراصل سننے سنانے کا آرٹ ہے۔ ڈرامے میں عمل کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور ریڈیو ڈرامے میں عمل کو آوازوں کے وسیلے سے ظاہر کیا جا تا ہے۔ انسانی تجربات و کیفیات، جذبات و احساسات اور غم و شادمانی کا اظہار ریڈیو ڈرامے میں آوازوں کے ذریعے کیا جا تا ہے۔ عام طور سے ریڈیو ڈرامے میں آواز کو استعمال کرنے کی تین صورتیں ہیں۔
مکالمہ ، صوتی اثرات ،موسیقی۔ یہ تینوں ارکان ریڈیو ڈرامے کی تین صورتیں ہیں۔

مکالمہ:

ریڈیائی ڈراموں میں سب سے زیادہ اہمیت مکالموں کی ہے۔ مکالمے کی زبان بولی اور سنی جانے والی زبان سے جس قدر قریب ہوگی ، مکالمے زیادہ مؤثر اور کامیاب ہوں گے۔ روزمرہ گفتگو کی زبان میں جذبات و احساسات کے اظہار کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور ایسی زبان سے سامعین بہت جلد ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔

ریڈیو ڈرامے کے مکالمے چھوٹے مگر بھر پور ترسیلی قوت کے حامل ہونے چاہئیں کیوں کہ سامع مکالموں کوسن کر ہی پلاٹ اور کرداروں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔مکالموں کے تعلق سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسٹیج ڈراموں میں صورت دیکھ کر کرداروں کو پہچانا جاسکتا ہے۔لیکن ریڈیو ڈرامے میں کرداروں کی شناخت کا واحد وسیلہ آواز ہے۔

آوازوں میں تمیز کرنا چہروں میں تمیز کرنے سے زیادہ دشوار ہے۔ لہذا مختلف کرداروں کی آواز میں اتنا نمایاں فرق ہونا چاہیے کہ سننے والا آسانی سے الگ الگ کرداروں کی پہچان کر سکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کرداروں کی شخصیت اور تہذیبی انفرادیت وغیرہ مکالموں سے ظاہر ہو سکے مثلا شہری کردار کی زبان ، دیہی کردار سے مختلف ہوگی۔ ایک تعلیم یافتہ فرد کی زبان اور لب و لہجہ ایک غیر تعلیم یافتہ آدمی سے مختلف ہوگا۔دیا ہوا لہجہ، دیمی خود کلامی ، ادھورے الفاظ ، اور سے آتی ہوئی آواز ،لڑ کھڑاتی ہوئی آواز ، ٹونی بھرتی ہوئی آواز ، سانسوں کی انجرتی گرتی آواز اور سرگوئی یہ بھی ریڈیو ڈرامے میں حربے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں تا کہ ڈرامے میں سامع کی شمولیت زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور پیش کش کی زیادہ تر جہات واضح ہوسکیں۔

صوتی اثرات:

ریڈیو ڈرامے میں مکالموں کے علاوہ مختلف قسم کی آوازوں سے بھی کام لیا جا تا ہے۔ ڈرامے میں آواز میں دو طرح سے استعمال کی جاتی ہیں۔
یہ ڈرامے میں پس منظر کا کام کرتی ہیں مثلاً بارش کی آواز یا بازار کے شور دل کی آواز ۔ یہاں پر اس بات کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے کہ ان کی زیادتی یا بلندی ڈرامے کے ارتقا عمل اور مکالمے کے سننے میں خلل انداز نہ ہو۔ان آوازوں کی دوسری صورت ڈرامے میں حرکت وعمل کو ظاہر کرتی ہے مثلا کسی چیز کی رگڑ یا کھڑ کھڑانے کی آواز ، موٹر سائیکل کی آواز ، ایمبولینس کی آواز ، آگ بجھانے والی گاڑی کا سائرن ، زخمیوں کی آہ و بکا ، کسی کے انتقال پر بین ،عراٹوں کی آواز ،قریب و دور کی آواز وغیرہ۔

موسیقی:

ریڈیو ڈرامے میں موسیقی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ موسیقی کا استعمال دوطرح سے کیا جا تا ہے: ڈرامے کی فضا یا پس منظر، حالات اور کردار کے جذبات و احساسات کو واضح کرنے کے لیے موسیقی کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً خورشید موسیقی سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ کوئی کردارغم اور تکلیف میں مبتلا ہے یا صورت حال غم ناک ہے ۔ اسی طرح بے راہ موسیقی ذہنی انتشار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ایک منظر کے خاتمے اور دوسرے کے آغاز کے لیے بھی موسیقی کا سہارا لیا جاتا ہے۔

اردو میں ریڈیو ڈرامے کی روایت:

اردو میں ریڈیو ڈرامے کا آغاز آل انڈیا ریڈیو کے قیام کے ساتھ ہوا۔ شہر وداس چڑ جی کے بنگالی ڈرامے کے اردو تر جمے کو اردو کا پہلا ریڈیو ڈراما تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے مترجم حکیم احمد شجاع تھے اور پروڈیوسر سید ذوالفقار علی بخاری تھے۔ اس دور میں حکیم احمد شجاع ،سید عابد علی عابد فضل الحق قریشی، محمد حنیف، نورالہی اور محمد عمر وغیرہ نے انگریزی، فرانسیسی، روی اور بنگالی ڈراموں کے تر تجھے اردو میں کیے۔

بعد میں اردو میں طبع زاد ریڈیو ڈرامے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ امتیاز علی تاج ،میاں لطیف الرحمن ، عبدالعزیز فلک پیما، ناکارہ حیدرآبادی ،عشرت رحمانی ، انصار ناصری وغیرہ اردو کے ابتدائی ریڈیو ڈراما نگار ہیں۔1930 کی دہائی سے مختلف سماجی ، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر اردو ریڈیو ڈرامے لکھنے کا آغاز ہوا۔

کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اپندر ناتھ اشک، شوکت تھانوی، مرزا ادیب، ریوتی سرن شرما، محمد حسن، کرتار سنگھ دگل ، رفعت سروش،قمر جمالی اور شمیم حنفی وغیرہ نے موضوعات، تکنیک اور پیش کش کے حوالے سے اردو ڈراموں کے دامن کو وسعت دی۔بی۔بی۔سی ۔ اور مختلف ممالک کی اردو ریڈ یوسروں نے بھی اردو ریڈیو ڈراموں کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

ٹی وی ڈراما:

ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے ڈرامے کو ٹی وی ڈراما کہتے ہیں۔ ریڈیو ڈراما صرف سنا جا سکتا ہے مگر ٹی وی ڈراما فلم کی طرح دیکھا بھی جاتا ہے۔ اسٹیج ، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے ذرائع میں بہت سی مماثلتیں ہے۔ لیکن کہانی کی پیش کش اور تکنیکوں میں نمایاں فرق ہے۔ٹی وی ڈرامے کی کہانی میں بھی حرکت ، کشمکش اور تصادم ہونا لازمی ہے۔

ٹی وی ڈرامے کے لیے ضروری ہے کہ مکالمے زندگی کے تقاضوں کے مطابق ہوں اور ان کی زبان عصری ہو۔ ٹی وی ڈرامے میں پیش کی جانے,. کہانی مختصر ہو سکتی ہے اور کئی قسطوں پر مبنی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کل ٹی وی ڈرامے سلسلہ وار دکھائے جاتے ہیں جن میں سماجی ، سیاسی ، تہذیبی اور مذہبی مسائل کہانی کے ماجرے کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔

ٹی وی ڈرامے کی عکس بندی اور اس کی نشر واشاعت کے مسائل خالص تکنیکی اور یہ ہیں۔ اس طرح کے ڈراموں میں تصویر اور آواز کے ساتھ ساتھ زبان کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے ٹی وی ڈرامے میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو را بطے کی زبان ہو۔ ہندوستان میں جب ٹی وی پر ڈراموں کی نشر و اشاعت شروع ہوئی ، اسی وقت سے اردو ٹی وی ڈرامے بھی نشر کیے جا رہے ہیں۔

اوپیرا:

لاطینی زبان میں اوپیرا کے معنی عمل کے ہیں۔ او پیرا منظوم ہوتا ہے اور اسٹیج پر اسے موسیقی اور رقص کے ساتھ پیش کیاجا تا ہے۔ اس لحاظ سے اردو میں اسے غنائیہ بھی کہتے ہیں ۔ مغرب میں سولھویں صدی سے اوپیرا کا آغاز ہوا۔ اوپیرا کا ماجرا حسن وعشق ، ہجر و وصال اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کے واقعات سے تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے اس میں شاعری کی مختلف اصناف اور رقص و موسیقی سے کام لیا جا تا ہے۔

لفظ اوپیرا اردو میں سب سے پہلے حافظ عبداللہ نے استعمال کیا۔ اوپیرا کے واقعے اور موسیقی میں کرداروں کے مزاج کے مطابق راگ راگنیاں متعین ہوتی ہیں۔ اس میں کہانی کے موضوع کے مطابق ہی موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ جس کا تسلسل کہیں ٹوٹنے نہیں دیا جاتا اور واقعے کے نشیب وفراز اور کرداروں کی نفسیاتی صورت حال سب پر موسیقی کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

اردو میں بہت سی مثنویوں کو منظوم قصوں کی صورت میں او پیرا کی طرح پیش کیا گیا۔ بہت سے منظوم قصے ریڈیو سے نشر کیے گئے جو ساز اور آواز کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے او پیرا تو کہے جاسکتے ہیں لیکن یہ میں ریڈیائی منظوم ڈرائے۔ اوپیرا تو ایک قسم کا واقعی ڈراما ہے جسے کردار اسٹیج پر عمل کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ یہ صرف آواز کا نام نہیں۔حافظ عبداللہ کے بعد سلام مچھلی شہری ، شہاب جعفری ، قیصر قلندر عمیق حنفی اور رفعت سروش کے نام آتے ہیں جنھوں نے اسٹیج پر اپنے منظوم ڈرامے پیش کیے جو او پیرا کا بدل کہلاۓ جا سکتے ہیں۔

نکڑ ناٹک:

نکڑ ناٹک عوامی ڈرامے کا ایک روپ ہے۔ اس میں کسی اسکرپٹ، ڈرامے کے لوازم اور اسٹیج کے بغیر عام زندگی میں پیش آنے والے عام انسانی مسائل کو چند ادا کار عوامی زبان میں بے ساختگی کے ساتھ کسی نکڑ یا چوک چوراہے پر پیش کرتے ہیں۔ نکڑ ناٹک کے مسائل میں سماجی، سیاسی اور عام موضوعات شامل ہیں جو روز مرہ انسانی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ نکڑ ناٹک میں چند اداکار گلی کوچے میں کہیں ڈھول وغیرہ بجا کر راہ چلتے عوام کو متوجہ کرتے اور فطری انداز میں عصر حاضر کے کسی مسئلے پر آپس میں مکالمہ کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں گہرے طنز اور مزاح کی جھلک ہوتی ہے مگر مسئلے کی سنجیدگی پر بھی ان کی پوری توجہ ہوتی ہے۔ حبیب تنویر اور مندر ہائی کے یہاں نکڑ ناٹک کی عمدہ ر مثالیں ملتی ہیں۔