Advertisement
Advertisement
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں بہت خاص اور نایاب ہوں اگر مجھ جیسا انسان تم مختلف ملکوں میں بھی ڈھونڈتے پھرو تو بھی تم نہ پاسکو گے۔اے میرے دوستوں میں ایک ایسا خواب ہوں جو پھر کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں آ سکتا ہے۔

Advertisement
اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر اپنے شوق سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے میرے شوق کچھ تم ہی مجھے خبر کرو کہ مجھ پر یہ کرشمہ اب تک نھیں کھل رہا ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بے تاب دل مجھ میں چھپا ہوا ہے کہ یا میں خود ہی دل بے تاب بنا ہوا ہوں۔

ہے دل میں تڑپتے جی بھر کر پر ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے تڑپتے دل کی کمزوری نے مجھے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ جیسے کسے نے میرے ہاتھ پیچھے کی جانب کرکے کس کر باندھ دیے ہوں۔ اس بے بسی کے باعث اس وقت میری حالت ایسی ہے کہ جیسے آگ پر کوئی آتیشیں پارہ چڑھا ہوا ہو یعنی اپنی بے بسی کی وجہ سے میں اندر ہی اندر کھول رہا ہوں۔

Advertisement
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری حسرتوں کا شمار نہیں ہے اور میری حیرت کی انتہا نہیں ہے میں اپنی حیرت اور حسرت میں گھرا ہوا ایک ساحل پر کھڑا ہوں۔دوسری طرف میرا محبت سے بھرا دل کہتا ہے کہ آؤ میں تو بہت آسانی سے پار کیا جا سکتا ہوں تو تم آکر مجھے پار کر لو۔

Advertisement
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہیں کم یاب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کسی منزل کی تلاش میں لاکھوں مسافر روانہ ہونے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔منزل تک رسائی انہی کے لیے ممکن ہوتی ہے جو استقامت کو اپنائے رکھتے ہیں۔اس لیے اے اہل زمانہ ہماری قدر کرو کہ ہم نایا ب تو نہیں ہیں لیکن تھوڑے بہت ہیں۔

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پنجرے میں قید پرندوں نے یہ پیغام دے بھیجا ہے کہ اگر تم کو آنا ہے تو آجاؤ کہ ہم ایسے بھی کھلے ہوئے شاداب ہیں۔

Advertisement

سوالوں کے جواب لکھیے:

سوال نمبر01:- “نایاب ہیں ہم” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

نایاب ہے ہم سے شاعر کی مراد ہے کہ میں بہت خاص اور نایاب ہوں۔کہ مجھ جیسا کوئی اور بمشکل ہی پایا جائے گا۔

سوال نمبر02:غزل کے پانچویں شعر کی وضاحت کرتے ہوئے نایاب اور کم یاب کا فرق بیان کیجئے۔

غزل کے پانچویں شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کسی منزل کی تلاش میں لاکھوں مسافر روانہ ہونے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔منزل تک رسائی انہی کے لیے ممکن ہوتی ہے جو استقامت کو اپنائے رکھتے ہیں۔اس لیے اے اہل زمانہ ہماری قدر کرو کہ ہم نایا ب تو نہیں ہیں لیکن تھوڑے بہت ہیں۔
یہاں شاعر کی نایاب سے مراد ہے کہ ایسا نہیں کہ محض میں ہی وہ ہوں جو منزل تک جا پہنچے گا لیکن ایسے لوگ ہوتے بہت کم ہیں۔

سوال نمبر03:’ حیرت و حسرت کے مارے’ شاعر سے دریائے محبت کیا کہتا ہے؟

حیرت وحسرت کے مارے شاعر سے دریائے محبت کہتا ہے کہ آ جاؤ مجھے پار کرنا بہت آسان ہے۔میں اتنا پایا ب ہوں کہ کوئی بھی با آسانی اسے پار کرسکتا ہے۔

غزل کے قافیوں کی نشاندہی کیجیے۔

نایاب،خواب،بے تاب،سیماب،پایاب،کم یاب،شاد،شاداب وغیرہ۔

Advertisement

غزل کے ان دو اشعار کی نشاندہی کیجیےجس میں غزل کی ردیف ‘ہم’ شاعر کی بجائے کسی اور کے کیے استعمال کی گئی ہو؟

شعر نمبر 4 اور شعر نمبر 6 میں “ہم” کی ردیف شاعر کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال کی گئی ہے۔

Advertisement

Advertisement