کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو تشریح

0

شاعر : مرزا غالب

ماخوذ از : دیوانِ غالب

تعارفِ غزل : 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔ اس نظم کو دیوانِ غالب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ شاعر : 

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

غزل نمبر ۲ :

کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

تشریح : اردو اور فارسی شاعری میں دل لینے اور دل دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ویسے تو دل دینا اور دل لینا محبت ہو جانے کا ایک اشارہ ہے لیکن ہوتے ہوتے یہ عمل بھی ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اب دل ، باقاعدہ کسی جنس یا پروڈکٹ کی طرح کسی کو پیش کر کے ،اس سے لینے ،اس کو سنبھال کر رکھنے یا ٹکڑے کر دینے کا عمل ہوتا ہے۔ مرزا غالب کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ کاروبار بھی نہایت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، بعد میں پچھتانا یا آہ وزاری کرنا مناسب نہیں۔

اس شعر کا ایک پہلو بھی ہے کہ مرزا یہاں اپنا اور دیگر عشاق کا دفاع کر رہے ہیں۔ وو فرماتے ہیں کہ جب ہم نے اپنی مرضی سے اپنا دل کسی محبوب کو پیش کر دیا ہے تو اس میں رونے دھونے والی تو بات ہی کوئی نہیں۔ یہ سودا تو ہم نے اپنی مرضی سے کیا ہے۔ ویسے بھی ہماری زبان تو ہمیشہ دل کی ترجمان ہوتی ہے۔ ہمارے لب پر وہی بات یا جذبہ آئے گا، جو ہمارے دل کے اندر ہے اور اگر سینے میں دل نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے تو منھ سے آہ و زاری یا فریاد کا جاری ہوناممکن ہی نہیں۔ اس لیے اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ ہم اپنا دل محبوب کو پیش کر کے پشیمان ہیں تو یہ سراسر ان کی غلط فہمی ہے۔

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

تشریح : اردو شاعری کا محبوب ہمیشہ سے خودسر اور سنگ دل واقع ہوا ہے۔ دوسری طرف مرزا غالب کی شاعری میں جو عاشق نظر آتا ہے ، وہ انتہائی وضع دار ، خود دار اور انا پرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دو انتہاؤں کے درمیان نقطہ اتصال تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس شعر میں تو انا کے ساتھ ساتھ ضد نبھانے کا سوال بھی آن کھڑا ہوا ہے کہ عاشق اس بات پر مصر ہے کہ اگر ہمارا محبوب اپنی خودسری ، تکبر، بے وفائی اور ظلم وستم سے باز نہیں آتا بلکہ ان تمام ہٹ دھرمیوں کو اس نے اپنا شعار بنالیا ہے ، تو ہماری وضع داری کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اس سے لیے دیے رہیں۔ اپنے کام سے کام رکھیں اور محبوب سے رابطے رجوع کا ہر خیال دل سے نکال دیں کیونکہ رابطہ ، رجوع یا صلح جوئی کی بات تو وہاں ہوسکتی ہے جہاں دونوں طرف رغبت ہو اور ہماری وضع داری کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اس سے لیے دیے ہیں۔ مرزا کے خیال میں اس امکان کے بغیر محبوب سے ناراضی اور قطع تعلقی کی وجہ دریافت کرنا بھی رسوائی اور بے عزتی کے زمرے میں آتا ہے۔

کیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

تشریح : اردو شاعری میں عشق و محبت کا جو سلسلہ نظر آتا ہے ، اس میں عاش رقیب اور نامہ بر کے کرداروں کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں کردار راز داں کا بھی دکھائی دیتا ہے۔ راز و نیاز کا سلسلہ اگر چہ عاشق اور محبوب کے درمیان ہونا چاہیے لیکن محبوب کی بے رخی کی بنا پر عاشق کو اس کے لیے کسی نئے کردار کی ضرورت پیش آتی ہے۔ راز ایک بہت بڑی امانت ہے اور اس کو سنبھالنے کے لیے بہت بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے اکثر راز داں محروم ہوتے ہیں اور اس امانت میں خیانت کر گزرتے ہیں۔ غالب اس صورت حال پر اکثر شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں وہ راز داں جو عاشق کے لیے نامہ بری کی خدمات بھی انجام دیتا ہے، خود محبوب کے عشق میں گرفتار ہو کر جنگلوں کی جانب جا نکلتا ہے۔

اس شعر میں بھی غالب کو ایسا ہی المیہ در پیش ہے کہ غم خواری اور راز دانی کا دعوی کرنے والے اس کے دوست نے راز داری کے تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھھ کے شاعر یا عاشق کو زمانے کے سامنے رسوا کیا ہے جن کی بنا پر شاعر محبت سے بھی دل برداشتہ ہو گیا ہے اور ساتھ ہی اپنے راز داں اور غم خوار سے شکوہ کناں ہے کہ اگر تمھارے ظرف حوصلے اور قوت برداشت کا یہی عالم تھا تو دوستی اور راز داری کی ہامی بھرنے کی ضرورت کیا تھی۔

یہ کہ سکتے ہو، ہم دل میں نہیں ہیں، پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمھی تم ہو، تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

تشریح : اس شعر میں مرزا اسد اللہ خاں غالب اپنے محبوب سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے مانا کہ رسوائی کے خوف یا اپنی بے نیازی کے زعم میں تم یہ بھی تسلیم نہیں کرو گے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہم تمھارے دل میں قیام کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس تم لوگوں کے سامنے ہمیشہ ہماری محبت سے انکار کرو گے۔ اور یہ بات بھی برملا کہو گے کہ ہمارا قیام تمھارے دل میں نہیں ہے۔ یہ سب تسلیم کیونکہ ہم تمھاری مجبوریاں سمجھتے ہیں لیکن ایک بات ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ ہمارے دل میں تو تمھارے سوا کوئی چیز ہے ہی نہیں ، یہ ہر وقت تمھارے تصورات ، خیالات اور یادوں سے آباد ہے۔ ہم یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ جو چیز کسی شخص کے دل میں موجود ہو ، اس کی تصویر اس کی آنکھوں میں دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ آنکھوں اور چہرے کو تو انسانی جسم کے کمپیوٹر میں مائیٹر (Moniter) کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے، لیکن تمھارے احتیاط ،ظاہری نگاہ اور لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ تم نے ہمارے دل میں مقیم ہونے کے باوجود ہماری آنکھوں سے عیاں ہونے سے انکار کر رکھا ہے۔ لیکن تمھارا یہ رویہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوۓ تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

تشریح : دنیاوی یا مجازی عشق کے بارے میں یہ تصور عرصے سے چلا آرہا ہے کہ یہ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ یہ انسان کا گھر بار برباد کر دیتا ہے ۔ اردو شاعری میں یہ روایت بھی ہے کہ آسمان رات دن گردش میں رہتا ہے اور انسان پر طرح طرح کے مصائب نازل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کا گھر بار تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مرزا غالب اس شعر میں عشق کی خاناں خرابی کا حال بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ جو شخص بھی کسی کے عشق میں مبتلا ہو گیا تو گویا اس نے دنیا بھر کی مصیبتوں اور مصائب کو دعوت دے دی،ایسے شخص سے تو آسمان کو بھی دشمنی کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آسمان کا اصل ہدف تو کسی کے گھر بار کو برباد کرنا ہوتا ہے، وہ گھر بار تو اسی فتنہ پرور عشق کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے میں دوست اور دشمن کے الفاظ میں صنعت تضاد کا خوبصورت استعمال ہے۔

یہی ہے آزمانا، تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم، تو میرا امتحاں کیوں ہو

تشریح : کسی بھی عاشق کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا محبوب رقیب کے ساتھ پینگیں بڑھاتا پھرے اور پھر غالب جیسا عاشق اور شاعر جس کو نہ صرف محبوب کے منھ سے شکوے کے انداز میں بھی رقیب کا نام سننا گوارا نہیں بلکہ وہ تو محبوب کے معاملے میں اس قدر حاسد ہے کہ اسے خدا کے سپرد کرنے سے بھی گریزاں نظر آتا ہے۔

شاعر کے سامنے محبوب نے رقیب کی ہم سفری کا یہ جواز گھڑا ہے کہ وہ اس طرح اپنے عاشق کو آزمانا چا رہا ہے شاعر کہہ رہا ہے کہ اگر اس رویے کا نام آزمانا ہے تو مجھے بتایا جائے کہ ستانا کس چڑیا کا نام ہے؟ شاعر کہتا ہے کہ مجھے تو تمھارے رویے، چال چلن اور رنگ ڈھنگ میں صاف نظر آرہا ہے کہ تم نے ہمیں چھوڑ کر ہمارے رقیب سے دوستی کرلی ہے۔ یہ ہماری آزمایش والی بات تم نے زمانے کے اعتراضات سے بچنے اور ہمارا دل رکھنے کے لیے گھڑ لی ہے حالانکہ تمھاری رقیب دوستی تمھاری بے وفائی کا صاف پتا دے رہی ہے۔

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

تشریح : مرزا غالب کا یہ مقطع بھی گذشتہ دونوں شعروں کا تسلسل ہے۔ پچھلے دونوں شعروں میں اس نے اپنے محبوب کو جو کھری کھری سنائی ہیں ، ان پر اب خود ہی تامل کرتے ہوۓ خود کلامی کے انداز میں خود کو سمجھنا چاہ رہا ہے کہ اے غالب! تو نے جو اپنے محبوب کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر اسے بے وفا ، بے مروت یا محبت ناشناس وغیرہ کے طعنے دینے شروع کیے ہوئے ہیں ، تو ان طعنوں سے تق کون سے مقاصد حاصل کر نے کا متمنی ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ تیرے برا بھلا کہنے سے وہ محبوب رقیب کو چھوڑ کر تمھارے پاس بھاگا چلا آۓ گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ تمھارے ان طعنوں کا الٹا اثر ہوگا کہ وہ تم سے اور بھی دور چلا جائے گا، جس سے اس کی ہٹ دھری ، سنگ دلی اور کٹھور پن میں مزید اضافہ ہو جاۓ گا، جس سے معاملہ قلعی تعلقی کی طرف بڑھ سکتا؟ جو تجھے کسی صورت بھی قبول نہیں۔

۱) مرزا غالب کی دونوں غزلوں میں مطلع اور مقطع کی نشان دہی کیجیے۔

جواب : مرزا غالب کی دونوں غزلوں کے پہلے اشعار دونوں دونوں مصرعوں میں ردیف قافیہ ہونے کی بنا پر مطلع ہیں ، جبکہ دونوں غزلوں کے آخری اشعار میں شاعر کا تخلص موجود ہے، جس کی بنا پر دونوں آخری اشعار مقطعے ہیں۔

۲) پہلی غزل کے دوسرے شعر میں مرزا غالب کس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں ؟

جواب : مرزا غالب اس شعر میں محبوب کی دیوانگی سے مغلوب ہو کر بے اختیاری میں محبوب کے کوچے کی طرف جانے پہ حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں۔

۳) پہلی غزل کے تیسرے شعر میں اہل تمنا کو شمشر عریاں ہلال عید کیوں نظر آتی ہے؟

جواب : چونکہ عشاق یا اہل تمنا محبوب کے ہاتھوں قتل ہونے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ اس لیے محبوب کے ہاتھ میں نظر آنے والی بے نیام تلوار انھیں ہلال عید یعنی عید کا چاند نظر آتی ہے، چاند جو انسان کے لیے خوشیوں کی نوید لے کر آ تا ہے۔ اس کے علاوہ تلوار اور ہلال عید میں ایک ظاہری مشابہت بھی موجود ہے۔

۴) دوسری غزل کے مطلعے میں مرزا غالب زبان پر کوئی حرف شکایت لانا پسند نہیں کرتے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟

جواب : مرزا غالب زبان پر کوئی حرف شکایت لانا اس لیے پسند نہیں کرتے کہ حرف شکایت زبان پر لانے سے شاعر کی وضع داری اور خودداری پر حرف آنے کا خدشہ ہے ویسے بھی زبان پر وہی کچھ آتا ہے جو دل میں موجود ہو اور شاعر اپنا دل کسی کو عنایت کر چکے ہیں۔

۵) دوسری غزل کے دوسرے شعر میں مرزا غالب اپنی وضع داری پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ اس سے کیا مراد ہے؟

جواب : شاعر کی وضع داری کا تقاضا ہے کہ وہ محبوب کے ہر ظلم و ستم کو ہنسی خوشی برداشت کرے اور حرف شکایت زبان پر نہ لاۓ۔ اگر محبوب اپنے ظلم و ستم سے باز نہیں آ تا تو یہ اپنی شرافت اور خودداری کو کیوں ترک کریں۔

۶) غزل علائم و رموز کی زبان ہے یعنی شاعر کچھ علامتوں اور اشاروں کنایوں میں اپنی دلی کیفیات کا اظہار نہایت لطیف پیراۓ میں کرتا ہے۔ دوسری غزل کے پانچویں شعر کے حوالے سے بتایئے کہ آسمان کس بات کی علامت ہے؟

جواب : اردو غزل میں آسمان ظلم و ستم ، جبر اور دشمنی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اصل میں اچھی یا بری تقدیر خوشی یا رنج یا پریشانی و کامیابی غرض سب اچھائی یا برائی الله کے اختیار میں ہے۔ ہمارے شعرا براہ راست اللہ تعالی سے تو شکوہ نہیں کر سکتے اس لیے انھوں نے اس کے لیے آسمان کی علامت وضع کر لی ہے اور ہمیشہ سے اسے برا بھلا کہتے اور بقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

سوال نمبر ۷: مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیے۔

ديوانگی شوق : محبت میں حائل ہونے والی دیوانگی
زود پشیماں: جلد پچھتانے والے
پاره دل: دل کا ٹکڑا

سوال نمبر ۸ : مندرجہ ذیل مصرعوں کو اصل لفظ کی مدد سے مکمل کیجیے۔

(الف) آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔
(ب) نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو۔