Advertisement
Advertisement
کون گیا تھا جنگل میں
شور مچا تھا جنگل میں

آنکھ لڑی تھی چھت پہ اور
وصل ہوا تھا جنگل میں

ایک پری سے چاند کو رات
عشق ہوا تھا جنگل میں

میں اُٹھا کے گھر لے آیا
چاند پڑا تھا جنگل میں

ایک درخت کے پتّے پر
موت لِکھا تھا جنگل میں

رات پرند اور پیڑوں میں
ذِکرِ وفا تھا جنگل میں

آنکھیں نم تھیں پیڑوں کی
چاند لُٹا تھا جنگل میں

سارے منظر بے کل تھے
پیڑ کٹا تھا جنگل میں

ایک بُلبُل کے کہنے پر
پھول کھِلا تھا جنگل میں

اِندرؔ تیرے عشق کا راز
رات کھُلا تھا جنگل میں
شاعر: اِندر سرازی

Advertisement
Advertisement