نظم روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے کی تشریح

0

بند 1 :

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردے میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ

تشریح:- اقبال اپنی اس نظم کے بند میں کہتے ہیں کہ اے آدمی! اپنی آنکھ کھول، یہ زمین دیکھ، یہ آسمان دیکھ، یہ موسم دیکھ، مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو بھی دیکھ اور خدا کا وہ جلوہ جو اب سامنے ہیں اس کو شام کے وقت پردے میں چھپا ہوا دیکھ۔ جب ہم کسی سے جدا ہو جائیں تو جدائی میں کیا کیا تکلیف ہوتی ہے وہ دیکھ۔ تو بےچین کیوں ہو رہا ہے، اس دنیا میں آیا ہے تو اب امیدوں اور خوف کے درمیان کی جنگ دیکھ۔

بند 2 :

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ

تشریح :- اقبال نظم کے اس بند میں کہتے ہیں کہ اے آدمی! یہ بادل، یہ گھٹائیں سب تیرے استعمال کی چیزیں ہیں۔ یہ آسمان، یہ چاند، یہ سورج اور ستارے، یہ خاموش موسم، یہ ماحول یہ پہاڑ، یہ ریگستان، یہ سمندر یہ سب چیزیں بھی تیرے لیے بنائی گئی ہیں کل تک تیرے سامنے فرشتوں کے کام کے چرچے تھے اور آج تو اس دنیا کے آئینہ میں اپنی تمام ادائیں دیکھ۔

شعر 3 :

سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
نا پید تیرے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کری اثرِ آہِ رسا دیکھ

تشریح :- اقبال نظم کے اس بند میں کہتے ہیں کہ اے آدمی! اب یہ زمانہ تیری آنکھوں کے اشاروں سے سمجھ لےگا کہ تو کیا چاہتا ہے۔ اب تجھے دور سے آسمان کے ستارے امید کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ در اصل تیری سوچ اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے، اب اگر تو آہ کرے گا تو تیری آہ کی شرارے آسمان تک چلے جائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے تو اپنی زندگی کو اپنی جدو جہد سے بنا لے، پھر اپنی آہ کا اثر دیکھ۔

بند 4 :

خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوشش پہیم کی جزا دیکھ

تشریح :- اقبال نظم کے اس بند میں کہتے ہیں کہ اے آدمی! تیری کوشش کے شعلے میں اس چمکتے ہوئے سورج کی ساری گرمی سما سکتی ہے۔ تیرے ہنر اور فن میں ایک نئی دنیا آباد ہو جاۓ گی، یہ بخشے ہوے فردوس کچھ اچھے نہیں لگتے اس سے بہتر تو وہ جنت ہے جو تیرے جگر کے خون سے بن سکتی ہے۔ تو پھول کی طرحنرم و نازک نہ بن۔ لگاتار جد و جہد کرکے تجھے اس کا بہترین نتیجہ ملے گا۔

شعر 5 :-

نالہ تیرے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
تو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ

تشریح :- اقبال اس نظم کے بند میں کہتے ہیں کہ اے آدمی! تیری سارنگی کا ہر تار شروعات ہی سے نغمے سنانے والا ہے اور تو شروع ہی سے محبت کا چاہنے والا اور دنیا کے اہم رازوں کے مندر کا تو استاد ہے اور تو شروع ہی سے محنت کرنے والا ہے، خون کا پسینہ بہانے والا ہے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا ہے، اب تو تقدیر کی سواری نہ کر، تو اب تیری رضا کے لحاظ سے جدوں جہد کر۔

سوالات و جوابات▪️

سوال 1 :- روح ارضی آدم کا استقبال کیوں کرتی ہے؟

جواب :- اللّٰہ نے آدم کو دنیا کی سب سے بہترین مخلوق بنایا ہے۔ اور دوسری سبھی مخلوقات کو اس کے ماتحت بتایا ہے۔ اس لیے اس کی عظمت اور قدرو قیمت کو محسوس کرتے ہوے روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔

سول 2 :- تعمیر خودی کا کیا مطلب ہے؟

جواب :- تعمیر خودی کا یہ مطلب ہے کہ آدمی تقدیر کے بھروسے نہ رہے اور اپنی سخت اور لگاتار جد و جہد سے اپنی زندگی اور اپنی دنیا خود قائم کرے۔

سوال 3 :- اس نظم کا بنیادی خیال کیا ہے؟

جواب :- اس نظم کی بنیادی خیال یہ ہے کہ جب اللہ نے آدمی کو ایک عظیم الشان بلکہ سب سے عظیم مخلوق قرار دیا ہے تو پھر آدمی کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ سخت جدد و جہد کرے۔ دنیا کے میدان میں لگاتار محنت و مشقت کرے تو پھر دنیا کی ہر ادنٰی اور اعلٰی شے اس کی ما تحت ہو جائے گی۔

سوال 4 :- اقبال کی شاعری کا امتیاز کیا ہے؟

جواب :- اقبال کی شاعری کا امتیاز یہ ہے کہ ان کا اسلوب بیان سب سے مختلف اور خوبصورت ہے۔ عربی اور فارسی کے الفاظ کی زیادتی ہونے کے باوجود شاعری میں زبردست روانی ہے۔ ان کی شاعری مقصدیت اور معنویت سے بھرپور ہے۔ خیالات کی بلندی اور فنی قابلیت سے ان کی شاعری دوسرے سبھی شاعروں سے ممتاز ہو گئی ہے۔

سوال 5 :- ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہو، اسے کیا کہتے ہیں؟

جواب :- ایسی نظم کو مخمس کہتے ہیں۔

سوال 6 :- متضاد لکھیے۔

ارضی آسمانی
فلک زمین
خرشید ماہتاب (چاند)
ازل ابد
محبت نفرت
تحریر 🔺محمد طیب عزیز خان محمودی🔺