کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش کی تشریح

0

غزل

کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مُدّت سے خموش
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غَلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

شعر نمبر 1

کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

فرہنگ:

  • سحر و شام: صبح و شام، مراد وقت کی گردش
  • صاحب ہوش: دانا شخص
  • فردا: آنے والا کل
  • دوش : گزرا ہوا کل

تشریح:

علامہ اقبال نے زمان و مکان کا تصور پیش کیا کہ زمانہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک زمانہ مسلسل دوسرا زمانۂ حقیقی۔ زمانہ مسلسل رات، دن، صبح و شام، ہفتہ اور ماہ و سال میں تقسیم ہوتا ہے جبکہ زمانۂ حقیقی ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ زمانۂ حقیقی میں ہمیشہ حال ہی ہوتا ہے۔ زمانہ مسلسل جسے ہم اور آپ ماضی، حال، مستقبل، دن، رات ماہ اور سال میں تقسیم کرتے ہیں اس میں پائے جانے والے موجودات کو فنا ہے لیکن جس شے کا تعلق زمانے سے آگے نکل کر ماورا ہوکر زمانۂ حقیقی سے تعلق ہے وہ کبھی فنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی ہمیشہ رہتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اقبال کا اس شعر میں کہنا ہے کہ اے صاحب ہوش انسان تو صرف دکھنے والی گردش وقت یعنی شام و صبح ماہ وصال میں گم ہو کر نہ رہ جا بلکہ اس زمانے سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کر کہ جس میں نہ گزرا ہوا کل ہے نہ آنے والا کل، کیونکہ اگر تو نے اس جہاں سے تعلق جوڑ لیا جہاں محبوب حقیقی کی ذات ہے تو تجھے کبھی فنا نہ ہو گی اور تیری زندگی کو ہمیشگی نصیب ہو جائے گی۔ تو مایوس نہ ہو، امید کے ساتھ آگے بڑھ اور اس چمکتی اور سنہری دنیا کے جھمیلوں میں نہ کھو جا، محبوب حقیقی سے تعلق جوڑ۔

شعری محاسن:

اس شعر میں شاعر نے سحر و شام سے استعارہ کیا ہے، گردش وقت اور موجودات و مخلوقات سے، صاحب ہوش، کنایہ ہے اہل نظر سے ’جہاں‘ سے زمانۂ حقیقی اور محبوب حقیقی تعبیر کیا ہے۔ ”فردا نہ دوش“ سے ماضی اور مستقبل مراد لیا ہے یعنی ناپائیدار موجودات۔ اس طرح شاعر نے شعریت کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے تصور اور خیال کا حسین پیرائے میں اظہار کیا ہے۔

شعر نمبر 2

کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مُدّت سے خموش

فرہنگ:

  • ہنگامۂ فردا: مستقبل کا ہنگامہ
  • مسجد : مذہبی عبادت گاہ
  • مکتب: مذہبی ادارے
  • میخانہ: شراب خانہ، مراد شراب عشق کا ادارہ، خانقاہ

تشریح:

اس شعر میں اقبال کا کہنا ہے کہ مسجد ، مدرسے، خانقاہیں سب اپنے منصب اور ذمہ داری کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ مدرسے اور خانقاہوں میں عشق محبوب حقیقی یا معرفت کی شراب پلائی جاتی ہے اور عبادت گاہوں میں مالک حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنی بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے، عملی طور پر انسانیت کی مساوات کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن مدت سے یہ سب خاموش ہیں یعنی اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کررہے ہیں۔یہ ادارے اپنے مقصد حیات کو بھول بیٹھے ہیں۔ ایسی حالت میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس ملت کا مستقبل کیا ہوگا۔

شعری محاسن:

اس شعر میں شاعر نے ’مسجد و مکتب‘ کو علامت کے طور پر اور ’میخانے‘ کو استعارتاً برتا ہے اور ”فردا“ کو مستقبل کی ناکامی یا کامیابی کے لئے استعمال کرکے شریعت کے حسن کو دوبالا کیا ہے۔

شعر نمبر 3

مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

فرہنگ:

  • عشق سحر گاہی: مراد رات کے پچھلے پہر محبوب حقیقی کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑانا
  • اسے: سے مراد محبوب حقیقی یا حقیقت حسن مطلق
  • درے ناب: خالص موتی
  • صدف: سیپی

تشریح:

رات کے پچھلے پہر جب بندہ اپنے محبوب حقیقی کی جناب میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے اور آنسوؤں کی بارش سے اپنی ندامت کا اظہار کرتا ہے تو وہ ندامت میں بہائے ہوئے آنسو موتیوں سے قیمت میں بڑھ جاتے ہیں بلکہ یہ آنسو کے ایسے موتی ہوتے ہیں، موتی کی سیپی کے احسان سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس لئے اقبال نے رات کے پچھلے پہر محبوب حقیقی کی بارگاہ میں اشک فشانی کرکے اپنے محبوب حقیقی کو خود پر راضی کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان آنسوؤں کی قیمت اس قدر انمول ہو جاتی ہے کہ موتی بھی اس کی عظمت کو نہیں پہنچ پاتے اور یہ آنسوؤں کے موتی صدف یعنی سیپی کے بارے احسان سے آزاد رہتے ہیں۔

شعری محاسن:

اس شعر میں بھی شاعر نے ’در ناب‘ سے استعارہ کیا ہے۔ محبوب حقیقی کی یاد میں بہائے ہوئے آنسوؤں کا، اور سحر گاہی سے پچھلے پہر محبوب حقیقی کو منانے والے افراد سے استعارہ کیا ہے۔

شعر نمبر 4

نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گُلگُونہ فروش!

فرہنگ:

  • چہرہ روشن ہونا: مراد اندر یا باطن روشن ہونا
  • گلگونہ فروش: سرخی پاؤڈر بیچنے والا ، غازہ
  • نئی تہذیب: مغربی تہذیب
  • تکلف: بناوٹ، کھوکھلا، دکھلاوا

تشریح:

اس شعر کا مفہوم قدرِ واضح ہے کہ مغربی تہذیب سراسر بناوٹ اور تصنع ہے لیکن جس بنی نوع آدم کا چہرہ ایمان کے نور سے روشن ہو تو اسے غازہ کریم پاؤڈر اور گلگونہ کی کیا ضرورت ہے۔

شعر نمبر 5

صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غَلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش

فرہنگ:

  • صاحب ساز: ساز والا، مراد اہل نظر
  • گاہے گاہے: کبھی کبھی
  • غلط آہنگ: غلط تصور، غلط لے، غلط منہاج
  • سروش: فرشتہ ، مراد الہام یا کشف

تشریح:

اقبال نے اس شعر میں تصوف کی راہ میں بھٹکنے کے امکان کو یہاں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو محبوب حقیقی کا کامل بندہ ہوتا ہے یعنی نبی اسے الہام یا وہی کے سمجھنے میں غلطی صادر نہیں ہوتی ایک جو بندہ کامل نہ ہو جسے صوفی سالک، ولی یا صاحب کشف کبھی اپنے کشف یا الہام کی تعبیر میں غلطی کا شکار بھی ہوجاتا ہے، اسی لئے یہ اصول ہے کہ اولیاء کا کشف و الہام حجت شرعی نہیں ہے۔ اقبال نے راہ طریقت کے سالک کو باخبر کیا ہے کہ کشف الہام کی تاویل میں غلطی بھی ہوسکتی ہے، اس میں استدراج شیطانی کا رنگ بھی آ سکتا ہے کیونکہ بہت سے الہام محبوب حقیقی کی طرف سے آتے ہیں اور بہت سے الہام شیطان کی طرف سے، تو صاحب ساز، یعنی سالک ضروری نہیں کہ جو ساز (الہام) ہوا ہے وہ محبوب حقیقی کی طرف سے ہو بلکہ وہ غلط آہنگ یعنی الہام، استدراج بھی ہو سکتا ہے یعنی شیطانی طاقت کی طرف سے تجھے برباد کرنے کے لیے آ سکتا ہے لہذا اس راہ سلوک میں باخبر رہ تا کہ کہیں اپنے وہم و گمان میں آکر برباد نہ ہو جائے۔

شعری محاسن:

اس شعر میں بھی اقبال ”صاحب ساز“ ” غلط آہنگ“ اور ”سروش“ کی تراکیب کو استعاراتی اور کنائی پیرائے میں برت کر شعر کے حسن کو صرف بچایا ہی نہیں بلکہ اس کے حسن دو چند بنا دیا ہے۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک
اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری