کہانی کے موضوع کی تلاش

0

کائنات کے ذرّے ذرّے میں افسانہ نگار کے لیے ان گنت ، بے شمار موضوع بکھرے پڑے ہیں۔ مناظر قدرت ، سمندر ، پہاڑ ، جنگل اور ان سب میں پھیلی ہوئی زندگی خدا کی پیدا کی ہوئی عجیب سے عجیب جاندار اور بے جان چیزیں ہاتھی ، گھوڑے ، اونٹ ، گائے ، بکریاں ، کتا ، بلی ، طوطا ، مینا ، سانپ ، بچھو اور ہر طرف رینگنے والے کیڑے مکوڑے پھر ان سب پر حکمرانی کرنے والا انسان ، دوسرا انسان ، تیسرا انسان ، اس طرح دنیا کے بے شمار انسان اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی عادت ، اپنا اپنا کردار ، اپنے جذبات ، احساسات اور اندر چھپی ہوئی کتنی ہی نفسیاتی پیچیدگیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور کتنے ہی موضوع ہر وقت افسانہ نگار کی نظر اور فکر کو دعوت دیتے ہیں۔

پھر ہر افسانہ نگار کی الگ نظر ہے ، اپنا علیحدہ سوچنے کا انداز ہے۔ اس طرح کائنات کے یہ بے شمار موضوع نہ کبھی ختم ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں کبھی پرانا پن پیدا ہوتا ہے۔ پرانا پن یا فرسودگی موضوع میں نہیں بلکہ موضوع کو تلاش کرنے والی نظر میں پیدا ہو جاتی ہے ، سوچنے والے دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے موضوع تلاش کرنے والے کے پاس ایک متجسس ، پریشان اور کبھی ایک جگہ نہ رکنے والی نظر اور کبھی ایک چیز سے مطمئن نہ ہونے والا مضطرب دل ہو تو افسانہ نگار کے لیےموضوع بہت ہیں۔

دوستوں سے باتیں کرتے وقت محض ایک لفظ ، سڑک پر گزرتے ہوئے کوئی چھوٹا سا حادثہ ، کسی کتاب میں دیکھی ہوئی کوئی تصویر ، کسی کتاب یا رسالے یا اخبار کا ایک ایک جملہ توانا ذہن کے لیے تازیانے کا کام کرتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز ، چھوٹی سے چھوٹی بات ، ایک لفظ ، ایک جملہ ، ایک غلط اندازِ نظر ، کسی نہ کسی نئے موضوع یا افسانے کے مرکزی خیال کا بہانہ بن جاتی ہے اور افسانہ نگار اس میں خود بخود بننے والے مرکزی خیال پر کسی افسانے کا ڈھانچہ بنا لیتا ہے۔لیکن موضوع ہمیشہ خود بخود نہیں آیا کرتے۔

یہ بھی ضروری نہیں کے وہ ہمیشہ افسانہ نگار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہیں ۔ افسانہ نگار کو موضوع تلاش کرنے پڑتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں دبے ہوئے تجربوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا پڑتا ہے ۔ جو دیکھا ہے ، سوچا ہے یا محسوس کیا ہے اسے ایک ایک کر کے سامنے لانا پڑتا ہے ۔ موضوع کی تلاش کے بعد ایک افسانہ نگار کے لیے بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن پر عمل کر کے وہ ایک حقیقی افسانہ نگار بن سکتا ہے۔ سب سے پہلی چیز اپنے موضوع سےاچھی طرح واقفیت ہونی چاہیئے ۔ اپنے مضمون اور موضوع سے سچا لگاؤ ہو ۔ اس نے اسے اس کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھا ہو ۔ اس طرح اسے اپنے موضوع پر قدرت حاصل ہوتی ہے اور اگر قدرت حاصل نہ ہو تو افسانہ نگار کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ ایک موضوع کو پھیلا سکے۔

افسانوں کے اندر منظر نگاری کے فن کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ افسانہ نگار نے مناظر فطرت کو قریب سے دیکھ رکھا ہو ۔ اگر وہ انڈے کا شہزادہ ہو تو اس کے لیے منظر نگاری انتہائی مشکل امر ثابت ہو گی ۔ ایک اچھے افسانہ نگار کی سب سے قیمتی چیز اس کا مشاہدہ ہے ۔ آنکھ برابر کھلی رہے ، چیزوں کو ہمیشہ غور سے دیکھا جائے تو تجربات کی دولت و جودت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ایک اچھا افسانہ نگار اپنی کہانیوں میں تجربات کو شامل کرتا ہے ۔ یہ تجربات حقیقت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مشاہدے اور تجربے کے علاوہ جو چیز افسانہ نگار کے لیے بہت ضروری ہے وہ ہے اس کا ذاتی مطالعہ اور محاسبہ۔ اسے چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ سے اپنی ذات کے متعلق سوالات کرتا رہے۔ انسانوں کے اندر بے شمار راز چھپے ہوتے ہیں اور افسانہ نگار کا کام ہی ان رازوں سے پردہ اٹھانا ہے۔ ضروری چیز یہ ہے کہ وہ پردہ سب سے پہلے اپنی ذات سے اٹھایا جائے۔ افسانہ نگار بہت کچھ دیکھتا ہے زندگی سے بہت سے نئے نئے تجربے حاصل کرتا ہے ۔ ذاتی محاسبہ سے اس پر فطرت انسانی کے چھپے ہوئے بھید آشکار ہو تے ہیں۔

سب سے ضروری چیز کہ اسے ہمیشہ چوکنا رہنا پڑتا ہے ۔ اپنے اردگرد پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ اچھے برے میں تمیز کرنی پڑتی ہے ۔ چیزوں کا بغور مشاہدہ اور بے پایاں مطالعہ کرنا پڑتا ہے ۔ تب جا کر وہ ایک حقیقی افسانہ لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔

موضوعات تب جاندار ہوں گے جب ان میں تنوع اور ندرت پائی جائے ۔ ایک کہانی کار کبھی بھی تنگ نظر نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب اور مسلک کے بیچ ٹکراؤ پیدا ہونے دیتا ہے ۔ جب وہ کہانی لکھ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کا کسی مذہب اور مسلک سے تعلق نہیں رہتا ، وہ ان سب عناصر سے عاری ہو جاتا ہے ۔ اس کا قلم محض علاقائی کہانیاں ہی نہیں لکھتا بلکہ آفاقیت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے ۔ اس کا کسی ایک قبیلے یا ملک ہی سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ کہانی لکھتے وقت وہ پوری دنیا کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اچھے افسانہ نگار کی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک جماعت یا سکول آف تھاٹ سے تعلق نہیں رکھتا ، بلکہ اس معاملے میں وہ امتزاجی طبیعت کا مالک ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔

تحریر امتیاز احمد