کیا سائنس میں بھی اندھی تقلید ہے ؟

0
✍️ ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی

کہا جاتا ہے کہ سائنس مشاہدات اور تجربات کا علم ہے جب کہ مذہب میں فقط اندھی تقلید و عقیدہ ہے اسی لیے مذہب کے علوم جامد و بند ہیں جبکہ سائنس کا علم قابلِ ارتقاء و فروغ ہے لیکن سائنس کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی نا ہی کیا ہے کہ اشیاء کی حقیقتیں فقط اسی قدر ہیں کہ جن کا مشاہدہ بلا واسطہ ہمارے حواس نے کیا ہے یا ہمارے تجربے میں آئی ہوں پانی کی مثال لے لیجیے کہ پانی ایک رقیق سیال مادہ ہے جس کا مشاہدہ ہماری آنکھیں بلا واسطہ کرتی ہیں یہ ایک پانی کی حقیقت ہے ، جبکہ اسی پانی کا ہر مالیکیول ہائیڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم پر مشتمل ہے یہ بھی اسی پانی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہماری آنکھیں نہیں کر سکتی بلکہ صرف استنباط و استنتاج کے ذریعے ، ایک قیاس کے ذریعے معلوم ہوتی ہے اور *سائنس پانی کی ان دونوں حقیقتوں کو تسلیم کرتی ہے ایک حقیقت مرئی ( قابل دید ) ہے جبکہ دوسری حقیقت غیر مرئی ( ناقابلِ دیدہ ) ہے گویا سائنس بھی غیر مرئی حقیقت تسلیم کرتی ہے* جیسے A.E. Mander لکھتا ہے کہ جن اشیاء کی حقیقتیں ہم جان سکتے ہیں وہ محسوس حقائق تک محدود نہیں ان کے علاوہ بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جن کو ہم براہ راست تو حاصل نہیں کر سکتے لیکن جان سکتے ہیں اس طرح کے حقائق کو جاننے کا ذریعہ استنباط اور استنتاج ہے اس طرح کی اشیاء کی حقیقت کو استنباطی حقائق Inferred facts کہتے ہیں یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دونوں طرح کے حقائق میں فرق ان کی حقیقت ہونے میں نہیں ہے بلکہ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی قسم کی حقیقت کو ہم بلا واسطہ جانتے ہیں جبکہ دوسری قسم کی حقیقت کو ہم بلواسطہ جان سکتے ہیں بہرحال حقیقت حقیقت ہے چاہے ہم اس کو براہ راست جانیں یا استنباط کے ذریعے جانیں ۔
Clearer thinking, page 49

وہ مزید اسی موضوع پر لکھتے ہیں کہ
ہم دیکھتے ہیں کہ جب چڑیا مر جاتی ہے تو زمین پر گر پڑتی ہے ، ہم کوئی پتھر اٹھاتے ہیں تو طاقت صرف ہوتی ہے ، چاند آسمان میں گھوم رہا ہے ، پہاڑ سے اترنے کے مقابلے میں چڑھنا دشوار ہے ، اس طرح کے ہزاروں مشاہدات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بظاھر ان میں کوئی ربط و تعلق نہیں لیکن اس کے بعد ایک استنباطی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کششِ ثقل ، تجاذب Gravitation کا قانون ، اس کے تمام مشاہدات اس استنباطی حقیقت کے ساتھ مل کر باہم مربوط ہوجاتے ہیں اور اس طرح پہلی بار ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات میں ایک نظم ، موافقت ، باقاعدگی موجود ہے ، ان محسوس واقعات کو الگ الگ دیکھا جائے تو یہ بے نظم اور متفرق لگیں گے لیکن ایک استنباطی حقیقت سے ملا کر دیکھیں تو مربوط و منظم لگیں گے۔

اب ذرا کششِ ثقل کے قانون کو سمجھنے کی کوشش کریں یہ ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت ہونے کے باوجود بذات خود قطعاً ناقابلِ مشاہدہ ہے سائنسدانوں نے جس چیز کو دکھایا وہ کششِ ثقل کا قانون نہیں ، کچھ دوسری چیزیں تھی جن کی منطقی توجیہ کرنے کیلئے وہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ یہاں کوئی ایسی چیز ہے جو ان میں ربط و موافقت پیدا کرتی ہے جس چیز کو کششِ ثقل سے تعبیر کرتے ہیں ، اس قانون کو پوری دنیا میں مانا جاتا ہے اور سب سے پہلے اس قانون کو نیوٹن نے دریافت کیا مگر خالص تجرباتی نقطہء نظر سے اس کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں نیوٹن نے جو خط بنٹلی کو لکھا اس میں نیوٹن کے الفاظ ہیں کہ
*یہ ناقابلِ فہم ہے کہ بے جان و بے حس مادہ کسی درمیانی واسطہ کے بغیر دوسرے مادے پر اثر ڈالتا ہے حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں
Works of W . Bentley page 221

میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا صرف اس بات کی نشاندھی کرنا چاہوں گا کہ ایک طرف یہی سائنسدان ناقابلِ مشاہدہ اشیاء کی حقیقتیں مانتے ہیں کششِ ثقل بھی ان ہی حقائق میں سے ایک حقیقت ہے بلکہ بقول نیوٹن کے ناقابلِ فہم ہے لیکن اس کے باوجود ایک حقیقت ہے کہ اشیاء کی حقائق کے درمیان ربط و نظم ، باقاعدگی و موافقت ثابت کرنے کیلیے مجبوراً مانا جاتا ہے اور پوری دنیا میں تسلیم شدہ حقیقت بن گیا ، لیکن یہی لوگ ہیں جو لوگ مذہب کے مسلم حقائق قبر ، حشر ، جنت ، دوزخ بلکہ وجود باری تعالیٰ کے یہ کہتے ہوئے منکر ہوجاتے ہیں کہ ان کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ، یہ حقائق تجربہ سے ثابت نہیں ہوتے ، حیرت ہے ان لوگوں پر کہ مذہب کے جو مسلم حقائق عین عقل کے موافق و مطابق جن کے دلائل سے کائنات بھری پڑی ہے وہ تسلیم کرنے میں اندھی تقلید لازم آرہی ہے جبکہ خود ناقابلِ مشاہدہ بلکہ ناقابل فہم چیز کو مجبوراً ماننے میں اندھی تقلید لازم نہیں آرہ۔