کیا ہم “کورونا” Deserve کرتے ہیں؟

0

مختلف انبیاء کی امتوں پر مختلف بیماریاں “وبائی امراض” اور مختلف طرح کے عذاب نازل ہوتے رہے ہیں۔ بیماریوں کا آنا جانا اس دنیا کے نظام کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ باری تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ لہذا صحت اور بیماری بھی ہماری تقدیر کا حصہ ہے۔ انبیاء کی امتوں پر جو وبائی امراض جیسا کہ “طاعون” اور کئی خطرناک قسم کے عذاب جیسا کہ پتھروں کی بارش، سیلاب، طوفان نوح، انسانی شکلوں کی تبدیلی وغیرہ نازل ہوتے رہے ہیں، یہ اس وقت کے لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہی تھے۔

ان کے اعمال اچھے نہ تھے، وہ مختلف طرح کے وسوسوں اور شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ ایک خدا پر ایمان یا پھر دل سے ایمان لانے والے نہ تھے، اور اپنی زندگیوں میں ہی اپنے اپنے حصے کے عذاب کے مستحق ٹھہرے تھے۔ آج کل “کورونا وائرس” بھی ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ ایک عام نزلہ زکام کا وائرس ہے، تاہم یہ تیزی سے انسانوں سے انسانوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس وائرس کے اثرات کچھ دنوں بعد ظاہر ہوتے ہیں تاہم اس سے قبل ہی یہ عموماً دیگر انسانوں کو متاثر کر چکا ہوتا ہے۔ 

اس بیماری نے دنیا کو وسیع پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ اب تک لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکا ہے، قرآن کریم میں “سورۃ الشوریٰ” کے اندر باری تعالیٰ نے فرمایا ! “اور تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں سےکئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے”۔ بعض احادیث میں نبی اکرم ؐ نے بہت وضاحت کے ساتھ ان اعمال کی نشاندہی فرمائی ہے، جن کی وجہ سے خطرناک بیماریاں آتی ہیں۔ چنانچہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا! “جب بھی کسی قوم میں کھلم کھلا بے حیائی ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں”۔ “ابن ماجہ”۔ 

اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ معاشرے میں بے حیائی اور گناہوں کے پھیلنے سے نت نئی اور خوفناک قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں جو کہ معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ہر ایک تکلیف، بیماری اور پریشانی میں ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے، اور اس سے مومن کے گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے۔ اللہ کے نبیؐ نے ایک اور جگہ فرمایا! “جب مومن کو کوئی تکلیف یا بیماری لاحق ہوتی ہے اور پھر اللہ سبحان و تعالیٰ اسے شفاء عطاء کرتا ہے تو وہ تکلیف یا بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، اور منافق جب بیمار ہوتا ہے اور جب اس کی بیماری یا تکلیف ختم ہوجاتی ہے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جس کو اس کے مالک نے پہلے تو باندھ رکھا تھا اور پھر چھوڑ دیا اور اس کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کو باندھا کیوں گیا تھا اور چھوڑ کیوں دیا گیا۔” “سنن ابوداؤد”۔ 

لہذا بیماری اور تکلیف کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ مسنون دعاؤں اوراذکار کا اہتمام کرنا چاہئے، اور اپنے روٹھے ہوئے رب کو منانے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ مزید ناراض کیا جائے۔ اللہ کی راہ میں صدقہ  دیا جائے کیونکہ  صدقہ بھی  اللہ کے  غضب کو  ٹھنڈا کرتا ہے، اور بری موت سے بچاتا ہے۔”ترمذی”۔ 

خدانخواستہ اگر کوئی ایسی وبائی مرض میں مبتلا ہوجائے تو گلے شکوے کرنے کی بجائے صبر کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ کسی تکلیف پر صبر کرنا بڑے اجر کا کام ہے اور اللہ بھی صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو  اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور لوگوں سے شکوہ شکایت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا۔

اس سب کے علاوہ ظاہری اسباب کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ علاج معالجہ کے لیے تمام دستیاب اور مستند وسائل اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہم تو ماسک کا استعمال بھی باعث شرم تصور کرتے ہیں۔  باوضو رہنے کا معمول بنانا چاہیے، اس سے صفائی کے ساتھ ساتھ بہت ساری نیکیاں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ جس جگہ پر بیماری لگنے کے زیادہ امکانات ہوں وہاں جانے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، اگر آپ پہلے سے ہی ایسے علاقے میں موجود ہیں کہ جہاں کوئی وبائی مرض پھیل چکا ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلیں، بلکہ صبر اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ وہیں پر رہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ! “اگر کوئی شخص کسی وبائی مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو جائے تو اسے شہید والا اجر دیا جاتا ہے”۔ “مسند احمد”۔ 

جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ کسی بھی معاشرے یا طبقے کے اندر وبائی امراض اس وجہ سے پھیلتے ہیں کہ وہاں بے حیائی عام ہو چکی ہوتی ہے اور باری تعالیٰ سے دوریاں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ مِن حیث القوم اگر غور کیا جائے تو کیا ہمارے معاشرے میں بے حیائی نہیں پائی جاتی؟ کیا یہاں بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و عصمت محفوظ ہے؟ کیا یہاں زکوٰۃ و عشر کا نظام موجود ہے؟ کیا یہاں شراب، نشہ، چرس، افیون، آسانی سے میسر نہیں ہے؟ کیا یہاں حسد، بغض، کینہ، لالچ عام نہیں؟ کیا یہاں ملاوٹ اور دھوکہ دہی عام نہیں ہے؟ کیا یہاں رشوت اور سود عام نہیں ہے؟ کیا یہاں قتل و غارت عام نہیں؟ کیا یہاں سفارشی کلچر کو پروموٹ نہیں کیا جا رہا، کیا یہاں میرٹ کا خون نہیں ہو چکا؟ کیا یہاں امیر اور غریب کے لیے ایک ہی قانون ہے؟ کیا یہاں حرام عام نہیں ہو چکا؟ کیا ہمارے معاشرے میں شادی مشکل اور زنا آسان نہیں بن چکا؟ کیا ہم خدا اور رسولؐ کے راستے سے ہٹ نہیں چکے؟ 

ایک معاشرے میں اس قدر برائیاں عام ہو جائیں تو ہمیں ذہنی طور پر خدا کے عذاب کے لیے بھی تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ عذاب کسی وبائی مرض کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، دراصل ہم اپنے خدا کو ناراض کرنے کی طرف جا رہے ہیں، اور دن رات شکوے اور شکایات کے انبار لگا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی طور پر اپنی اصلاح کریں، اپنے معاشرے میں بے حیائی اور تمام چھوٹی بڑی برائیوں کا خاتمہ کریں۔ صبر اور تحمل سے کام لیں، اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ بہن، بیٹی کی عزت و عصمت کو بحال کرنے کی کوشش کریں، زکوٰۃ و عشر کا نظام وضع کریں، نشے جیسی لعنت سے معاشرے کو پاک کریں اور دھوکہ دہی سے پرہیز کریں، رشوت  اور سود سے معاشرے کو پاک صاف کریں، ان تمام چیزوں کے لئے ایک مجموعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اب بھی اپنی اصلاح نہیں کریں گےتوبڑی شرم کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہم “کورونا” “Deserve”  کرتے ہیں۔ 

دنیا   میں  لذتیں    ہیں  نمائش ہے،   شان  ہے
 ان کی طلب میں، حرص میں سارا  جہان ہے
اکبر   سے   سنو   کہ   جو  اس   کا   بیان  ہے
دنیا   کی  زندگی   فقط     اک   امتحان   ہے۔