Advertisement
Advertisement
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے
آسماں پر اکھڑے جاتے ہیں قدم تاثیر کے

بے مروت بن کے اب کیا سوئے صحرا جائیے
لوٹتے ہیں پاؤں پر حلقہ میری زنجیر کے

ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی
آہ گبھرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کے

وصل سے محروم میں ہوں ورنہ گستاخی معاف
بوسے لیتا ہے تصور آپ کی تصویر کے

مجھ کو مضطر دیکھ کر کہتا ہے قاتل پیار سے
آ ادھر سایہ میں سو جا دامنِ شمشیر کے


میرے مرتے ہی دل بیتاب کو چین آگیا
زندگی صدقے میں اتری گردش تقدیر کے

دیکھ فانی وہ تیری تدبیر کی میت نہ ہو
اک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے

Advertisement
Advertisement