Back to: فانی بدایونی کی غزلیں
Advertisement
Advertisement
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شبگیر کے آسماں پر اکھڑے جاتے ہیں قدم تاثیر کے بے مروت بن کے اب کیا سوئے صحرا جائیے لوٹتے ہیں پاؤں پر حلقہ میری زنجیر کے ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی آہ گبھرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کے وصل سے محروم میں ہوں ورنہ گستاخی معاف بوسے لیتا ہے تصور آپ کی تصویر کے مجھ کو مضطر دیکھ کر کہتا ہے قاتل پیار سے آ ادھر سایہ میں سو جا دامنِ شمشیر کے میرے مرتے ہی دل بیتاب کو چین آگیا زندگی صدقے میں اتری گردش تقدیر کے دیکھ فانی وہ تیری تدبیر کی میت نہ ہو اک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے |
Advertisement
Advertisement