سفر نامہ زرد پتوں کی بہار کا خلاصہ سوالات و جوابات

0
  • باب نمبر09:سفرنامہ
  • مصنف کا:رام لعل
  • سبق کا نام:زرد پتوں کی بہار

سفر نامہ زرد پتوں کی بہار کا خلاصہ:

‘زرد پتو ں کی بہار’ رام لعل کا سفر نامہ ہے جو انھوں نے 1980 میں کیے گئے پاکستان کے سفر پر لکھا۔رام لعل اس سفر کی روداد کو یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے پاکستان کے ویزا کے لئے دو بار اپلائی کیا پہلی بار حکومت پاکستان کی جانب سے ویزا کی درخواست رد کر دی گئی مگردوسری بار درخواست دینے پر منیر احمد شیخ جو ہندوستان میں پاکستانی سفارت خانے کے پریس کونسلر ہیں، انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان عوام میں بھائی چارے اور محبت و ہم آہنگی کے جذبات بڑھنا چاہتی ہے جس کے باعث ان کا ویزا لگا یا جا رہا ہے۔یوں میں اپنے ان قلم کار رشتے داروں کو ملنے کے لئے پاکستان کو روانہ ہوا جن میں سے بیشتر کو میں ان کے تخلیقی خدوخال کی حد تک جانتا تھا۔ان میں سے کئی نے مجھے اکثر اوقات یہاں آنے کی دعوت بھی دی تھی۔

راستے میں جب وہ ماضی کی یادوں میں کھو گئے تو وہ یہ سوچنے لگے کہ نقل مکانی تو جیسے مجھے ورثے میں ملی ہے کہ پہلے میرے آباؤ اجداد کشمیر اور وزیرستان سے نقل مکانی کرتے ہوئے راجستھان پہنچے اور پھر وہاں سے میانوالی اور لاہور اور آج پھر سے میں ان جگہوں پہ اس گھر کی تلاش میں جا رہا ہوں جہاں میری پیدائش ہوئی اور میری والدہ کا انتقال بھی۔

لاہور کی وہ سڑکیں اور گلیاں جہاں میں نے اپنے جوانی کے ایام گزارے وہ سب دوبارہ سے دیکھوں گا۔ریل کے سفر میں یہ سب یادیں میرے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہیں اور مجھے اپنے ماضی اور زمین سے جڑے ہونے کا احساس ہوا۔ ان بھول بھلیوں سے نکل کر اچانک میں لاہور کے مضافات میں جا پہنچا۔جہاں بڑی عمارتیں سڑک کنارے پودے اور بہت کچھ تھا۔

ٹرین اسٹیشن جا پہنچی تو وہاں ایک نیا جہان آباد تھا سب لوگ پنجابی بول رہے تھے۔کسٹم اور ویزا چیکنگ کی ایک لمبی قطار تھی کہ اسی دوران ڈاکٹر احراز نقوی،ڈاکٹرآغا سہیل اور طاہر تونسوی وغیرہ مجھے لینے آپہنچے۔یہاں پر انھوں نے کسٹم کے مختلف مقامات سے مجھے گزارا۔میں چونکہ اس سے قبل لاہور ریلوے میں ملازم تھا میں نے وہ جگہ دیکھی جہاں سے میں نے آخری بار اپنی تنخواہ لی تھی اور جہاں سے میں اپنے ہندوستان کے سفر کے لئے روانہ ہوا تھا۔

میرے دوستوں نے مختلف مقامات پر میرا تعارف افسانہ نگار کہہ کر کروایا جہاں لوگ مجھ سے گرمجوشی سے پیش آئے۔آغا سہیل لکھنو کی گلیوں سے کٹ کر لاہور آیا تھا بالکل ایسے جیسے میں یہاں سے کٹ کر ہندوستان گیا تھا وہ کچھ عرصہ قبل اپنے پرانے نشانات کی تلاش میں لکھنو آیا تھا اور بہت کچھ بدلا ہوا پایا تھا بالکل اسی طرح آج میں یہاں اپنے کھوئے ہوئے نشانات تلاش کر رہا تھا۔

ریلوے اسٹیشن سے ہم ایف سی میں واقع آغا سہیل کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔جہاں اس کے بیٹے اور بیوی بچوں کے علاوہ حسن عسکری،راحت سعید، احراز نقوی اور دیگر لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔احمد ندیم قاسمی سے طویل عرصہ بعد ٹیلی فون پر بات ہوئی۔سب سے مل کر بہت سے پروگرام طے کیے مگر کوئی بھی پراگرام نہ بن سکا کہ سب سے ملتان سے واپسی پر ملاقات ہو گی۔سب دوست چائے پینے کے بعد رخصت ہوئے۔

سوالات:

سوال نمبر 1:ایک اچھے سفر نامے میں ہم کیا کیا خوبیاں تلاش کرتے ہیں؟

ایک اچھے سفر نامے کی خوبی ہے کہ اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آبیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف ہوتا ہے اور پھر سفر کرنے والا خود جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات قاری تک اس طرح پہنچائے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی معلوم ہو۔ یہ سب باتیں ایک اچھے سفر نامے کی خوبیاں شمار کی جاتی ہیں۔

سوال نمبر 2:رام لعل پاکستان کیوں جانا چاہتے تھے؟

رام لعل اپنے قلم کار رشتے داروں سے ملنے اور اپنی جائے پیدائش میانوالی اور وہ جگہ جہاں ان کی جوانی کے ایام گزرے یعنی لاہور کو دوبارہ سے دیکھنے کے لئے وہ پاکستان جا نا چاہتے تھے۔

سوال نمبر 3:لاہور پہنچ کر رام لعل کن معروف ادیبوں سے ملے؟

لاہور پہنچ کر رام لعل ڈاکٹر احراز نقوی،ڈاکٹرآغا سہیل، طاہر تونسوی اور ابصار عبدالعلی وغیرہ سے ملے تھے۔

سوال نمبر 4:اپنے ماضی کے بارے میں رام لعل نے جو باتیں لکھی ہیں انھیں اپنے لفظوں میں لکھیے۔

اپنے ماضی کے حوالے سے رام لعل لکھتے ہیں کہ نقل مکانی مجھے ہمیشہ سے وراثت میں ملی ہے۔ میری پیدائش تو میانوالی کی تھی مگر آباؤ اجداد صدیوں پہلے راجستھان سے حملہ آوروں کے آگے بھاگتے ہوئے آ ئے تھے۔اس سے بھی قبل وہ کشمیر اور وزیرستان کے جنوب کی جانب سے ایک قافلے کے ساتھ نقل مکانی کی صورت میں راجستھان پہنچے تھے۔اور اب میں عارضی طور پر اس جگہ لوٹ رہا ہوں جہاں میرے بزرگوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔

عملی کام:

سوال: آپ نے اگر کسی ملک یا شہر کا سفر کیا ہے تو اسے سفر نامے کی صورت میں تحریر کیجئے۔

پچھلے سال گرمیوں میں مجھے بس کے ذریعے کراچی سے سکردو جانے کا اتفاق ہوا۔ میں رہتا کراچی میں ہوں لیکن میرا گاؤں بلتستان ہے جس کا صدر مقام سکردو ہے۔ بلتستان پاکستان کے شمال میں ہے اور کے ٹو، سیاچن اور کارگل جیسی عظیم پہاڑی چوٹیاں اسی علاقے میں ہیں۔ میں زندگی میں پہلی مرتبہ اکیلا سفر کر رہا تھا۔ میں کراچی سے بس کے ذریعے اسلام آباد پہنچا جہاں سے میرے سفر کا سب سے دلچسپ حصہ شروع ہوا۔

بس اسلام آباد اور راولپنڈی کی درمیانی سڑک پر واقع پیر ودھائی کے بس سٹینڈ سے روانہ ہوئی۔ سفرکے پہلے کچھ گھنٹے تو بہت اچھے گزرے لیکن جب ہم مانسہرہ پہنچے تو میری حالت خراب ہونے لگی۔ اتنےاونچے اونچے پہاڑ دیکھ کر دل ڈوبنے لگا، سڑک کی ایک طرف دریائے سندھ اور دوسری طرف تاحد نظراونچے پہاڑ سر اٹھائے کھڑے تھے۔ میرا تودم نکلنے والا تھا۔

اب پہاڑ پر چڑھتے ہوئے بس کو چار گھنٹے ہو چکے تھے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا ’بھائی ابھی کتنا پہاڑی راستہ باقی ہے‘ تو اس نے کہا ’ بھائی ابھی تو سفر شروع ہوا ہے، پندرہ گھنٹے کا سفر باقی ہے‘ اور ساتھ ہی ہنسنے لگا۔اس کی ہنسی نے مجھے اور زیادہ خوفزدہ کردیا۔

میں نے مضبوطی سے اپنی سیٹ پکڑی ہوئی تھی کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ پھر اچانک خیال آیا۔۔ دیکھو اختر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ یہ خیال آتے ہیں دل مضبوط ہوا اور میں نے اپنے بیگ سے بسکٹ کا پیکٹ اور پیپسی نکالے اور کھانے پینے میں لگ گیا۔

میرے ساتھ بس میں سٹوڈنٹس کا ایک گروپ بھی تھا جو نوابشاہ سے بلتستان گھومنے نکلے تھے۔ ان میں سے ایک بولا ’ بھائی آپ تو بڑے مزے سے بسکٹ کھارہے ہیں اور ہم سب کی حالت خراب ہو رہی ہے۔‘ میں نے کہا کہ بھائی تم لوگ تو اتنے زیادہ ہو اور میں اکیلا آدمی ہوں۔ تم لوگ تو ایک دوسرے سے بات کر کے وقت پورا کر لوگے لیکن میں کس سے بات کروں۔

بہرحال رات بھر سفر جاری رہا۔ تھوڑی دیر کو سویا ہوں گا کہ صبح ہو گئی۔اچانک میری نظر پڑی تو میری دائیں طرف ایک انتہائی بلند اور ہیبت ناک مگر خوبصورت پہاڑ تھا۔ میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔

میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کون سا پہاڑ ہے کہ ایک بورڈ پر نظر پڑی۔ لکھا تھا ’ آپ اس وقت جس پہاڑ کو دیکھ رہے ہیں وہ نانگا بربت ہے‘۔خوشی کے مارے میری چیخ نکل گئی۔ میرے پاس کیمرہ نہیں تھا ورنہ جی چاہ رہا تھا کہ اس لمحے کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس قید کر لوں۔
ہماری بس اسی طرح اونچے نیچے پہاڑی سلسلوں کے درمیان چلتی رہی۔اب دس بج چکے تھے۔میں چاروں طرف پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک ٹیلے پر پڑی تو میری آنکھیں کھل سی گئیں۔ ہماری بس ذرا قریب پہنچی تو منظر صاف ہوا۔ پہاڑی ٹیلا بالکل ایسا لگا کہ جیسے ایک شخص نے ٹو پیس سوٹ پہنا ہوا ہے اور اس کا اوپر کا دھڑ آپ کو دکھائی دے رہا ہو۔

تھوڑی دیر میں بس سکردو پہنچ گئی، لیکن اس سفر کا خیال آتا ہے تو ایک ہی بات منہ سے نکلتی ہے کہ’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔جو بھی کہا جائے یہ سفرمیری زندگی کا دلچسپ اور یادگار ترین سفر تھا۔