Advertisement

گیت اردو شاعری کی ایک صنف ہے۔ گیت کا موسیقی سے بہت قریب کا رشتہ ہے اسی لیے اسے غنائی شاعری میں شامل کیا جا تا ہے۔اس میں نہ تو الفاظ کی بازی گری ہوتی ہے اور نہ مبالغے سے کام لیا جا تا ہے ۔ گیت میں ایک موڈ ، ایک خیال اور ایک احساس کا بھر پور اظہار ہوتا ہے۔اسے کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے لیکن عموماً اس کے لیے چھوٹی بحر یں ہی استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مکھڑا ایک بھر میں اور بول مختلف بحروں میں ہو سکتے ہیں۔

Advertisement

گیت میں احساسات و تجربات ، نرم، سبک، شیریں اور مترنم الفاظ میں بیان کیے جاتے ہیں۔اردو میں گیت کی روایت امیر خسرو سے منسوب کی جاتی ہے۔ قدیم عہد سے تا حال جو گیت لکھے گئے ،ان کا خاص موضوع عشق ہے۔ جدائی کے غم اور ملن کی خوشی سے ہمارے گیت بھرے پڑے ہیں۔

گیت کا اظہار عام طور پر عورت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس میں عاشق یا شوہر سے جدائی اور موسموں اور تہواروں کے ماحول کا تذکرہ سیدھی سادی لیکن پر اثر زبان میں کیا جا تا ہے ۔ عشقیہ جذبہ کے علاوہ مناظر فطرت ، مختلف تہواروں اور حب الوطنی کے موضوعات پر بھی گیت لکھے گئے ہیں۔اردو گیت کی روایت کے جائزے میں میرا بائی اور کبیر کے گیتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دکن میں بھی گیت کے لیے فضا بہت سازگار رہی ہے۔

ابراہیم عادل شاہ ثانی ،قلی قطب شاہ، وجہی ، علی عادل شاہ اور دوسرے شعرا نے اردو گیت کو فروغ دیا۔ شمالی ہندوستان میں فضل نارنولوی ، عزلت، واجد علی شاہ اور امانت لکھنوی نے اس جانب خصوصی توجہ کی ۔ جدید دور کے آغاز کے ساتھ عظمت اللہ خاں، آغا حشر ، آرزو لکھنوی ، حفیظ جالندھری ، اختر شیرانی، میراجی مطلبی فرید آبادی ، سلام مچھلی شہری ، شاد عارفی ، احسان دانش، ندا فاضلی اور زبیر رضوی وغیرہ نے گیت کی صنف میں اہم اضافے کیے ہیں۔ ایک گیت دیکھیے:

سکھ کی تان (میرا جی)
سکھ کی تان سنائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اب سکھ نے بدلا بھیس نیا
اب دیکھیں گے ہم دیس نیا
جب دل نے رام دہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اس دیس میں سب ان جانے میں
اپنے بھی یہاں بیگانے ہیں
پیتم نے سب سے رہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
ہر رنگ نیا، ہر بات نئی
اب دن بھی نیا اور رات نئی
اب چین کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
اپنا محل بنائیں گے
اب اور کے در پہ نہ جائیں گے
اک گھر کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی

Advertisement