ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تشریح

0

مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل گوئی پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تعارفِ غزل

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔ یہ غزل دیوانِ غالب سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ” تو کیا ہے“ ؟
تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟

اس شعر میں شاعر خود پر ہونے والے ستم اور اپنی بیچارگی کو سہل اور لطیف انداز میں بیان کررہے ہیں۔ وہ اس شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تم ہر بات میں مجھے کہتے ہو کہ میں کون ہوں تو تم ہی بتاؤ کہ یہ بات کرنے کا کون سا انداز ہے جس میں سامنے والے شخص کو بےعزت کیا جائے۔

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے؟

اس شعر میں شاعرکہتے ہیں کہمیرے محبوب کی جفاؤں کے سبب میرا پورا جسم خون کے آنسو بہارہا ہے اور شاید میری موت اب میرے نزدیک آگئی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اب میں اپنے محبوب کے منہ سے صرف اب اظہارِ محبت سننا چاہتا ہوں اور مجھے اس کے علاوہ کسی شے کی چاہ نہیں رہی ہے۔

جلا ہےجسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کی گستاخیوں سے ہمارا پورا جسم جل چکا ہے تو یقیناً اب ہمارا دل بھی جل کر راکھ ہوچکا ہوگا۔ پھر وہ محبوب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تم اب ہمیں کرید رہے ہو اور ہمارا حال دریافت کررہے تو اب تمھیں اس راکھ میں سے مزید کس چیز کی جستجو ہے۔

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟

اس شعرمیں شاعر اپنے بکھرے ہوئے جذبات کو سمیٹ رہے ہیں اور نہایت وسیع مفہوم کو دو مصرعوں میں بیان کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے مصرف اور احساسِ انسانیت سے عاری زندگی کسی کام کی نہیں ہے ، انسان کے دکھ اور درد میں شریک رہنا ہی انسانیت ہے ورنہ یہ زندگی بیکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک انسان کا احساس اور محبت اس کی آنکھوں سے لہو بن کر نہ ٹپکے تب تک اس محبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

رہی نہ طاقتِ گفتار، اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے؟

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے محبوب کی اتنی بےاعتنائی کو برداشت کرنے کے بعد اب ہمارے ہاس اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی بھی ہمت موجود نہیں ہگ اور اگر باالفرض ہمارے پاس ہمت ہو بھی تو ہم کس امید پر اور کس کے سامنے اپنے حق کی فریاد کریں۔ ہمارا محبوب تو ویسے بھی ہم سے بےاعتنائی برتتا ہے اور ہم سے جفا کرتا ہے۔

ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جب بہادر شاہ ظفر نے مجھے اپنا استاد بنا لیا تو پھر اس شہ کا مصاحب بن کر میں اترانے لگا ورنہ میری اس شہر میں حیثیت ہی کیا تھی۔ دراصل وہ اس شعر کے ذریعے انسانوں پر طنز کررہے ہیں کہ انسان دوسروں کی شہ پر اترتا ہے حالانکہ اسکے پاس اس کا اپنا کچھ بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔

اس غزل کے سوالوں کے جوابات کے لیے یہاں کلک کریں۔

سوال نمبر 2: درج ذیل الفاظ و تراکیب کے معنی لکھیے :

الفاظ معنی
پیراہن لباس
حاجت رفو سلائی کی ضرورت
مصاحب ساتھی
قائل مان جانا
طاقت گفتار بولنے کی طاقت
جستجو لگن

سوال نمبر 3 : درج ذیل بیانات میں سے درست بیان پر (درست) کا نشان لگائیے :

  • (الف) غزل میں مطلع نہیں ہوتا۔ ✖
  • (ب) مطلعے کے دونوں مصرعوں میں قافیہ ضروری ہے۔ ✔
  • (ج) قافیے سے پہلے آنے والے الفاظ کو ردیف کہتے ہیں۔ ✖
  • (د) ایک بند میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ ✖
  • (ہ) جس شعر میں شاعر کا نام یا تخلص ہو،مطلع کہلاتا ہے۔ ✖

سوال نمبر 4 : درج ذیل درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے۔

(الف) اس غزل کے مقطعے میں موجود ہے شاعر کا :

  • (۱)خطاب
  • (۲)نام
  • (۳) تخلص ✔
  • (۴)لقب

(ب) اس غزل میں لفظ “پیراہن” کے معنی ہیں :

  • (۱)لباس ✔
  • (۲)بستر
  • (۳)لہو
  • (۴)راکھ

(ج) حروف و حرکات کا مجموعہ جو شعر میں ردیف سے پہلے آئے کہلاتا ہے :

  • (۱)تخلص
  • (۲)قافیہ ✔
  • (۳)مطلع
  • (۴)مقطع

(د) اس غزل کی ردیف ہے :

  • (۱)پیراہن
  • (۲)گفتگو
  • (۳)کیا ہے ✔
  • (۴)قائل