ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے

0

غزل

ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سراے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
اب اور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
توڑا ہے لامکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندانِ عقل!تیری تو کیا کائنات ہے
ہستی کو تیرے درد نے کچھ اور کر دیا
یہ فرق مرگ و زیست تو کہنے کی بات ہے
یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر
کس کو دماغِ کاوش ذات و صفات ہے
عنوان غفلتوں کے ہیں،فرصت ہو یا وصال
بس فرصتِ حیال فراقؔ ایک رات ہے

تشریح

ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سراے عشق میں دن ہے نہ رات ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبت کی دنیا باقی دنیا سے بالکل الگ ہے۔ یہ ایک حیرت سرا ہے اور عشق کی اس حیرت سرائے یعنی حیرت زدہ دنیا میں نہ کوئی وقت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی دن اور رات کا تعین ہے۔گویا شب و روز برابر ہے۔

اب اور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

کوئی بھی تکلیف ہو رات کو شدت اختیار کرتی ہے اور پھر ہجر کا درد تو اور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔رات کاٹے نہیں کٹتی۔بہت لمبی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ اس جدائی کی قدرت نے وہ کیفیت پیدا کر دی ہے کہ نہ آسمان کی گردش کا کچھ احساس ہو پا رہا ہے اور نہ کوئی زندگی کی علامت نظر آرہی ہے۔لہذا کتنی رات گزر چکی ہی اور کتنی باقی ہے،اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے۔شاعر ہجر کے درد ہی سے پوچھ رہا ہے کہ تو ہی بتا دے کہ کس قدر رات بڑھ گئی ہے۔

توڑا ہے لامکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندانِ عقل!تیری تو کیا کائنات ہے

شاعر کہتا ہے کہ عقل کے قیدی،اے اہل دانش و عقل تیری دنیا ہی کتنی ہے کہ کوئی جس کو نہ پا سکے۔ عشق نے تو ایک جست میں یہ دنیا چھوڑ دوسری دنیا کی حدوں کو لانگ دیا ہے۔پھر تیری دنیا کی کیا حیثیت ہے۔

ہستی کو تیرے درد نے کچھ اور کر دیا
یہ فرق مرگ و زیست تو کہنے کی بات ہے

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تیرے درد محبت نے میری اس ہستی کو وہ رونق اور وہ چیز عطا کر دی ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ یہ زندگی موت تو ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ان میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے اور موت کا کوئی رنج نہیں ہے۔

عنوان غفلتوں کے ہیں،فرصت ہو یا وصال
بس فرصتِ حیال فراقؔ ایک رات ہے

شاعر کہتا ہے کہ ’’فرقت‘‘ بہ معنی جُدائی یا ’’وصل‘‘ بمعنی ملا دراصل بے خبری کے سبب سے دئیے گئے عنوانات ہیں۔ورنہ ایں فراق حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مہلت ہی بہت قلیل ہے۔محض ایک رات کی زندگی ہے تو پھر اس میں برکت کی کیا حیثیت اور وصل کی کیا بساط۔