Back to: گل افشاں ناز
Advertisement
ہزاروں مر گئے اخباروں کے پنوں میں لاکھوں ڈوب گئے یادوں کے دلدل میں اب کہ جو یہ ارض بنا ہے حشر کا میدان سانسیں بک رہی ہیں بازاروں میں یہ جو وبا قہر بن کے برپا ہوا ہے بے لباسوں کے چہرے ہیں پردوں میں زمیں چھوٹی کفن کم پڑ رہے ہیں لاشیں بکھر ی پڑی ہیں ٹکڑوں میں آزاد جانور پھرتا ہے در بہ در انسان بندھا ہے کھونٹوں میں |