ہماری بنیادی ضروریات اور ( اڈ – ایگو – سپر ایگو)

0

انسانی وجود کو زندہ رہنے کے لیے بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بھی عدم دستیاب ہو تو انسانی وجود کے ذروں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ انسان اس قدر کمزور ، مایوس، مضطرب اور کاہل ہو جاتا ہے کہ وہ کار زندگی کو بجا لانے کے ساتھ ساتھ عبادات کو سرانجام دینے میں بھی کوتاہی برتنے لگ جاتا ہے۔ کھانا ،پینا، نیند ،لباس اور رہائش انسان کی وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کا پورا ہونا ہی نظام کی درستی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ان کے علاوہ نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی انسان کی بنیادی ضروریات کا ایک لازمی جزو ہے۔ جیسے کھانا ،پینا، لباس اور رہائش جائز طریقے سے حاصل کیے جاتے ہیں ایسے ہی نفسانی خواہشات کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کو جائز طریقے اور مذہب کے دائرہ کار یا نصب العین کے مطابق ہی تکمیل کے مرحلے سے گزارا جائے۔ انسان کی تمام خواہشات کبھی بھی پوری نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی تمام خواہشات پوری ہونے والی ہوتی ہیں۔جو خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں یا پھر ہمارا مذہب، ہمارا معاشرہ اور ہماری معاشرتی و تہذیبی روایات ان کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی ہیں ،وہ خواہشات ہمارے لاشعور میں کہیں دب جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات اکثر سر اٹھاتی رہتی ہیں اور انسان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان کی تکمیل جائز و ناجائز طریقے سے کرئے۔ یہاں پر ایک انتہائی دلچسپ triangle بن جاتی ہے۔ یہ triangle اڈ، ایگو اور سپر ایگو پر مشتمل ہوتی ہے۔ 1:( اڈ) ایک شیطان صفت شخص یا چیز ہے ۔2:( ایگو) کو ایک نارمل شخص تصور کیا جا سکتا ہے۔ 3: (سپر ایگو) کو ہم فرشتہ صفت کہہ سکتے ہیں۔( اڈ )کے اندر جب بھی کوئی ناجائز یا ممنوعہ خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ ایگو سے رابطہ کرتا ہے۔ ایگو( اڈ )کو محض اس خواہش کی تکمیل کے فائدے اور نقصانات سے آگاہ کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ جبکہ سپر ایگو( اڈ) کو اس کی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز راستہ یا حل بتا دیتا ہے۔ 

ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اس میں تمام تر بنیادی ضروریات بمشکل پوری ہوتی ہیں۔ روٹی کے لیے خوب تگ و دو کرنی ہوتی ہے۔ حلال و حرام کا تصور بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے ۔ لباس اور رہائش بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ اگر نفسانی خواہشات کے حوالے سے بات کی جائے تو ہمارا معاشرہ اور مذہب ہمیں ایک صراط مستقیم عطاء کرتے ہیں۔ یہی صراط مستقیم ہمیں نکاح کی طرف لے کر جاتی ہے۔

لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ آج کل نکاح ایک مہنگا اور مشکل عمل بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر بچوں کے نکاح ان کی آدھی عمر گزر جانے پر کیے جاتے ہیں۔ جس سے کئی طرح کے جنسی و افزائشِی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی کو مشکل ترین بنا دیتے ہیں۔ ہم مادہ پرستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر انسان کی خواہش بنتی جا رہی ہے کہ وہ اپنے سے بڑے خاندان سے رشتہ جوڑے۔

روپیہ ،پیسہ، بینک بیلنس، زمین جائداد، گاڑیاں بنگلے، خاندانی لڑائیاں اور دشمنیاں، انا پرستی اور ہٹ دھرمی، ذات پات، حسب ونسب، لالچ اور حوس، یہ سب چیزیں ہماری جائز نفسانی خواہشات/ نکاح میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ یہی رکاوٹیں گناہ پر آمادہ کرتی ہیں اور ہم مذہب کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ پھر یہاں پر ہمیں کسی ایگو اور سپر ایگو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم ان ( ایگو ، سپر ایگو ) کی بات ماننے کو تیار ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے نکاح وقت پر کریں جو کہ ان کا حق ہے، تاکہ وہ گناہ کی دلدل میں نہ جائیں۔ 

کوئی ان معاشرتی وسماجی اشوز پر بات کرے یا کچھ لکھنے کی کوشش کرے تو ہم لکیر کے فقیر اس پر فحاشی کا ٹیگ لگانے کی مکمل سعی کرتے ہیں۔ اس کو ذہنی اذیت دیتے ہیں۔ معاشرے میں اسے رسوا کرتے ہیں۔ منٹو، عصمت، سجاد حیدر یلدرم نے جب ان مسائل پر لکھا تو ہم نے انہیں فحش نگار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ شخصی و ذہنی مسائل اور ان کا حل پیش کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انسان کی فطرت وجبلت کے اندر گہرائیوں میں پناہ گزیں نفسانی خواہشات کی حقیقت پر ہی تو بات کرنا چاہی۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جن معاشروں میں انسان کی نفسانی خواہشات کی تکمیل جائز طریقے سے اور بروقت ہو جاتی ہے ،ان معاشروں کے اندر انسانوں کے لشکر پیدا ہوتے ہیں۔ اور جن معاشروں میں ان خواہشات کی تکمیل ناجائز طریقوں سے کی جاتی ہے وہاں حیوانوں کے لشکر پیدا ہوتے ہیں۔

تحریر۔امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]