ہنگامہ گرم کُن جو دل ناصبور تھا

0

غزل

ہنگامہ گرم کُن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تٔیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صدکوہِ طور تھا
کل پاؤں ایک کاسٔہ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چُور تھا
تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

تشریح

ہنگامہ گرم کُن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

غزل کے متلع میں شاعر فرماتے ہیں کہ میرا بے صبر دل اس قدر بے چین ہے کہ فریاد آوازاری میں حد سے بڑھ گیا ہے اور میری ہر ہر فریاد سے قیامت کا جیسا شور پیدا ہو رہا ہے۔شاعر نے اپنی فریاد اور آ ہ وزاری کی شِدّت کو قیامت کے شور سے تشبیہ دیتے ہوئے نہایت موثر انداز میں دِل کی بے صبری کو بیان کیا ہے۔اس کیفیت کو دوسرے لفظوں میں و خشتِ دل کا بڑھ جانے کہہ سکتے ہیں۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تٔیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

شاعر فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے آپ سے دور تھا یعنی خود کو پہچانتا نہیں تھا تو میں خدا سے بھی بہت دور تھا۔خدا کو پہچاننے کے لیے مجھے پہلے اپنے آپ کو پہچاننے کی ضرورت تھی۔اپنے آپ کو پہچان کر گویا میں خدا کو بھی پہچان گیا۔مراد یہ ہے کہ جب تک انسان اپنے آپ کو نہیں پہچانتا،وہ خدا کو بھی پہچان نہیں سکتا۔

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صدکوہِ طور تھا

میر اس شعر میں حضرتِ موسٰی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں اے موسٰی آپ کو خدا کا جلوہ دیکھنے کا بڑا شوق تھا لیکن آپ جلوے کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔اگر آپ کے دل میں خدا کو دیکھنے کا شوق عشق کی حد تک ہوتا تو پھر اس عشق کی آگ کےایک ہی شعلے سے طُور کا تمام پہاڑ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا لیکن آپ کے دل میں دراصل محبوبِ حقیقی کے دیدار کی تڑپ اور لگن موجود تھی ہی نہیں۔اِسی لیے آپ اس کی ایک جھلک کی بھی تاب نہ لا سکے۔گویا محبوب کا دیدار کرنے کے لئے پہلے اپنے دل میں عشق کی آگ کو تیز کرنا پڑتا ہے۔

کل پاؤں ایک کاسٔہ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چُور تھا

میر اس قطعے میں فرماتے ہیں کہ کل میرا پاؤں کسی فوت شدہ شخص کے سر کی ایک کھوپڑی پر پڑا۔ وہ کھوپڑی (سر کی ہڈی) بالکل چکنا چور ہو گئی تھی۔اس (ہڈی) نے مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ اے بے خبر انسان ذرا دیکھ کر چل۔آج تم مجھے روندے کر چلے گئے لیکن تم کیوں بھول گئے کہ ایک دن میں بھی کسی جیتے جاگتے انسان کے سر کی عزت تھی۔آج اگر وہ سر خاک میں مِل گیا اور تم اس روندھے چلے جارہے ہو، تو یہ بھی سوچو کہ کل تمہارے سر کی کھوپڑی بھی میری طرح حق میں پڑھی ہوں گی اور لوگ اسے بھی اپنے پاؤں تلے روندھتے چلے جائیں گے۔

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

شاعر اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حسین وجمیل محبوب ہم می جنّت کی حور کی مانند تھا یعنی وہ جنّت کا باشندہ ہماری اس دنیا میں موجود تھا۔اگر ہم یہ بات نہ سمجھ سکے تو یہ اپنی کم عقلی تھی۔گویا اور جیسا خوبصورت اور دلُربا محبوب جنّت سے اس دنیا میں آیا ہوا تھا کیونکہ اس قدر حسین و جمیل اور دلکش محبوب اس دنیا میں تو نہیں ہو سکتا۔لیکن جب وہ پاس تھا تب ہم یہ بات نہیں سمجھ پائے اب جب کہ وہ پاس نہیں ہے تو اب یہ بات سمجھ میں آئی ای۔

جب کسی نے محبوب کا نام شاعر کے سامنے لیا تو وہ یہ نام سُن کر اس قدر بے چین ہوا کہ بڑی مشکل سے اپنے دل کو تھام لیا۔