Advertisement
یوں اپنا صبر کھو بیٹھا ہے پاگل
مگر تم آؤ تو بیٹھا ہے پاگل
وہ سب سے چال گہری چل رہا ہے
تمہارے ساتھ جو بیٹھا ہے پاگل
شبِ غم اشکوں کی بارش ہوئی تھی
ترے سب خط بھگو بیٹھا ہے پاگل
وہی کم بخت لوگوں مسخرہ ہے
جو بھی قسمت پہ رو بیٹھا ہے پاگل
تفکر میں کہیں وہ جا چکا ہے
نہیں پاگل وہ جو بیٹھا ہے پاگل
جنوں نزدیک اس کے اب کھڑا ہے
کسی سے دور ہو بیٹھا ہے پاگل
میاں عمر