Back to: احمد عرفان
Advertisement
Advertisement
یہاں وہ میرے دل پہ کوئی ستم ڑھا رہا تھا وہاں وہ اور کا ہونے کی قسم کھا رہا تھا واسطہ خدا کا دے کر اس نے مجھ سے رخصتی لی میں دیکھ رہا تھا اسکو جو آخری رسم نبہا رہا تھا فقیر بولا کہ بیٹا دیکھو کہاں پہ تیر لگا ہوا ہے میں بیخودی سے بھرا ہوا تھا سو اپنا جسم دکھا رہا تھا وہاں وہ محفل خوشی میں گم، یہاں یہ رات عزاب مجھ پر وہ اپنی مہندی سجا رہا تھا میں اپنے چشم سُکھا رہا تھا دوا نہیں تھی مرض کی کوئی فراقِ یار شدید تر تھا میں اس کا دیدار کر رہا تھا وہ مجھکو زم زم پلا رہا تھا میں حال اپنا بتا نہ پایا وہ اس کا وعدہ نبہا نہ پایا وہ اسکی باتوں کا وہ خلاصہ میں دم بہ دم بھلا رہا تھا ختم شدی پر میں کہہ رہا تھا،جی! درد کو سہہ رہا ہوں وہ ہنس کے بولے خوشی ہو تم کو پھر اپنا ہمدم دکھا رہا تھا بہت سہا ہے بہت بہا ہے بہت سنا ہے بہت کہا ہے بہت سے عرفاں ہیں دیکھے میں نے میں اپنے زخم چھپا رہا تھا |
Advertisement
Advertisement