یہ آرزُو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے

0

غزل

یہ آرزُو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بُلبُل بے تاب گُفتگو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزُو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جُستُجو کرتے
جو دیکھتے تیری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی، آزاد آرزُو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالم بر گشتہ طالعی آتشؔ !
برستی آگ جو باراں کی آرزُو کرتے

تشریح

پہلا شعر

یہ آرزُو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بُلبُل بے تاب گُفتگو کرتے

بُلبُل گُل کا عاشق ہے۔ اس کے نزدیک پھول سب سے حسین ہے۔ادھر شاعر اپنے محبوب کو سب سے زیادہ حسین خیال کرتا ہے۔اب وہ کہتا ہے کہ ہماری یہ خواہش تھی کہ اے محبوب تجھے گُل کے سامنے بِٹھاتے اور پھر ہم بُلبُل سے بات کرتے کہ بتا کون زیادہ حسین ہے۔ بُلبُل پر حقیقت واضح ہوجاتی اور اس کی خوش فہمی دُور ہو جاتی۔

دُوسرا شعر

پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزُو کرتے

شاعر کہتا ہے کہ اگر نامہ بر میسر نہیں ہو سکا ہے تو اچھا ہی ہوا کہ غیر کی زبان سے اپنی آرزُو کا خلاصہ کیوں کر کرتے۔اپنی آرزُو کا اظہار اُس کی زبان سے کیوں کر کرواتے۔

تیسرا شعر

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جُستُجو کرتے

اس شعر میں شاعر نے صنعتِ حُسنِ تعلیل سے کام لیا ہے۔ سورج چاند گردش میں دکھائی دیتے ہیں۔شاعر نے اس کا شاعرانہ سبب یہ بتایا ہے کہ وہ کسی کی تلاش میں آوارہ ہیں۔لہذا وہ کہتا ہے کہ یہ بھی میری ہی طرح آوارہ ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی کسی ہم دم کی تلاش میں ہیں۔

چوتھا شعر

جو دیکھتے تیری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی، آزاد آرزُو کرتے

شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب جو لوگ محبت میں گرفتار نہیں ہیں،آزاد ہیں اگر وہ ایک بار تمھاری پیچ دار حلقہ نُما زُلفوں کو دیکھ لیں تو اُنھیں آزاد ہونے پر افسوس ہو اور وہ ان زُلفوں میں قید ہونے کی خواہش کریں۔

پانچواں شعر

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

محبوب کی جُدائی میں دل و جگر کا جو حال ہوتا ہے اس کا بیان لفظوں میں مُمکن نہیں ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ اگر وہ جانِ جاں یعنی جان سے عزیز محبوب نہیں آتا تو کم ازکم موت ہی آجاتی کہ ہم دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کریں کہ اب برداشت سے باہر ہے۔

چھٹا شعر

نہ پوچھ عالم بر گشتہ طالعی آتشؔ !
برستی آگ جو باراں کی آرزُو کرتے

شاعر کہتا ہے کہ اے آتش ہماری بد نصیبی کا عالم مت پُوچھو کہ جس چیز کی ہم خواہش کریں اس کے برعکس ہوتا ہے۔اگر ہم بارش کی دُعا کریں تو اس کی جگہ آگ برسے۔ہماری طالع کی برگشتگی کا یعنی بد نصیبی کا یہ عالم ہے۔