اتنے شرمیلے ہو گئے ہیں

0
اتنے شرمیلے ہو گئے ہیں
سر سے پا گیلے ہو گئے ہیں

جب سے برفیلے ہو گئے ہیں
رستے پنکیلے ہو گئے ہیں

دودھ سے پالا تھا لیکن سانپ
پھِر بھی زہریلے ہو گئے ہیں

اتنا زہر بھرا ہے ہم میں
کپڑے تک نیلے ہو گئے ہیں

آنکھوں میں چھائی ہے مستی
اور ہونٹ نشیلے ہو گئے ہیں

تم بھی کم کم بول رہے ہو
ہم بھی شرمیلے ہو گئے ہیں

تیرے عشق میں ہم بھی جاناں
تھوڑے سے ہٹیلے ہو گئے ہیں