اخوت کی تعریف، لغوی معنی اور فضائل

0
  • سبق نمبر 21:

سوال۱: اخوت پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

جواب: اخوت کے معنی بھائی چارہ یا بھائی بننے کے ہیں۔ افلاطون نے کہا تھا”بھائی بھی اسی وقت بھائی ہے جبکہ وہ دوست ہو۔“ اسلام سے پہلے عرب قبیلہ واریت میں ایسے پھنسے ہوئے تھے کہ افراتفری کا عالم تھاہر قبیلہ نے اپنے اپنے جدابت بنا رکھے تھے بات بات میں ان کے درمیان لڑائیں ہوتی رہتی تھیں۔عرض تمام عرب ایک دوسرے سے بکھرے ہوئے انتشاراور بدامنی میں زندگی گزاررہے تھے۔ اور یہی وجہ ان کی بدحالی کی تھی۔

جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم سے مکہ سے یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت فرمائی اور دوسرے مسلمان بھی وہاں پہنچے تو سب سے پہلے کام آپﷺ نے یہی کیا کہ مہاجر وانصار کے درمیان اسلامی رشتہ کو استوار کرکے اور اس باہمی تفریق کو ختم کرنے کے لئے اخوت کا رشتہ قائم کیا اور فرمایا کہ تم سب کےسب اولاد آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ”اخوت بین المسلمین“ کی بنیاد ایسی پڑی کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے حقیقی بھائی کی طرح سمجھا، انتہا تو یہ ہے کہ اپنی جائیدادوں اور ملکیت میں ان کو برابر کا حصہ دار بنادیا اور ایک ایسی خوشگوار بندھن سے وہ منسلک ہوگئے کہ کوئی واقعہ اور حادثہ و سازش نے اس مقدس رشتہ کو نقصان نہ پہنچایا۔ یہ تو تھا اس مقدس رشتہ کا تعلق۔

اب اس کے فائدہ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ خواہ کسی ملک میں بستے ہوں، ان کا کسی قوم یا قبیلہ سے تعلق ہو وہ عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے دولت اور وسائل کے لحاظ سے ان میں قطعاً ہی فریق کیوں نہ ہو انسانیت کے اصول اور قانون اسلامی کے پابند رہنے کے سبب سب بھائی ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر وہی حقوق ہیں جو بھائیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔آپﷺ نے اس رشتہ کو اور زیادہ مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے فرمایا کہ ”مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں“ اگر جسم کے کسی حصہ کو صدمہ پہنچتا ہے تو اس کے اثر سے جسم کے دوسرے حصوں کو اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ بخار سے پھنکنے لگتے ہیں اور بے قرار ہوجاتے ہیں۔

اس مثال کے ذریعے اسلامی اخوت کی روح اور مقصد رسول اللہ ﷺ نے کیسے موثر انداز میں سمجھایا ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کہ”اس کے بعد یہ سمجھایا کہ قبیلہ واریت اور آپس میں پھوٹ اور انتشار آخر کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔ “جبکہ ہم نے تمہیں مختل گروہوں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا کہ تم پہچانے جاؤ۔“ (سورۃ الحجرات:۱۳) اس کا مقصد یہ ہوا کہ قبیلہ واریت اور باہمی تعصب اور دوسروں سے نفرت بے جا اور غلط ہے اور یہ معیار جو تم نے آدمیوں کے درمیان تفریقیں جمعیت کی زیادتی اور مال و اسباب کی فراوانی اور کہیں طاقت و اسلحہ کی فراہمی کے سبب کر لیا ہے وہ بالکل غلط ہے، مرنا سب کو پڑے گا مگر کوئی مرنے کے بعد سکون و راحت پائے گا اور کوئی عذاب میں مبتلا ہو گا کیونکہ انسانوں کے درمیان بلندی اور برتری کا ابدی معیار مقرر کر دیااور وہ ہے۔
”کہ تم میں جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں زیادہ مستعد اور متقی ہوگا اسی کا مرتبہ بلند ہوگا۔(سورۂ الحجرات:۱۳)“

سوال۲: اخوت کے پیش نظر مسلمانوں کا آپس میں کیسا تعلق ہونا چاہیے؟

اخوت انسانوں خصوصاً اہل ایمان کے لئے بے حد اہم ہے اسی لئے مختلف اوقات میں رسول ﷺ نے نئے نئے انداز میں مسلمانوں کو اخوت کی طرف متوجہ فرمایا”مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمان کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔“کہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا اور کہیں اس کی مدد کرنے، مصیبت کو دور کرنے اور عجب چھپانے کی تعلیم دی اور کسی مقام پر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے خلاف عیب تراشی، بہتان، غیبت ، ٹوہ لگانے اور زبان و ہاتھ سے نقصان پہنچانے کی ممانعت فرمائی گئی مسلمانوں کی خیر خواہی ، وقت اسلام علیکم، اس کی دعوت کو قبول کرنیک، تیمارداری کا حکم دے کر ایسا ہی ضروری قرار دیا جیسا کہ ایک بھائی کا دوسرے بھائی پر حق ہوتا ہے۔

سوال۳: اخوت کے لغوی معنی لکھیں۔

جواب: اخوت کے معنی بھائی چارہ یا بھائی بننے کے ہیں۔

سوال۴: آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی اخوت کو جس مثال سے سمجھایا بیان کریں۔

جواب: آپﷺ نے مسلمانوں کے آپس کے رشتہ کو اور زیادہ مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے فرمایا کہ ”مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں“ اگر جسم کے کسی حصہ کو صدمہ پہنچتا ہے تو اس کے اثر سے جسم کے دوسرے حصوں کو اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ بخار سے پھنکنے لگتے ہیں اور بے قرار ہوجاتے ہیں۔ اس مثال کے ذریعے اسلامی اخوت کی روح اور مقصد رسول اللہ ﷺ نے کیسے موثر انداز میں سمجھایا ہے۔