اللہ ہی جانے

0
تحریر رفیق زاھد ،گوادر

جوانی کے دور میں میں نے کافی غربت اور بدحالی دیکھی ثھی اور اسی غربت کی وجہ سے میں ھمیشہ یہی سوچتا تھا کہ میں نے پڑھائی کے سلسلے میں جو ایک سوچ بنارکھی تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ،ایک اچھی نوکری پاکر ،اپنے خاندان کی تمام محرومیوں کے خاتمے کی کوشش کروں گا۔وہ شاید اس غربت کی وجہ سے پوری نہ ھوسکیں ۔لیکن اچانک اس شخص کے میری زندگی میں آنے سے مجھ پر جو عنایات کی برسات ھوئی ،تو اس کی وجہ سے میں نہ صرف اپنی پڑھائی مکمل کرسکا ،بلکہ میری زندگی میں ایسے تغیرات بھی ظہور پزیر ھوئے کہ جو آگے چل کر مجھ میں پہلے تو سیاست کے کیڑے کو ابھارکر آگے لانے کا سبب بنے اور پھر مجھے ایک کامیاب بزنس مین کے طور پر آگے لے آئے۔

جبھی تو میں اس وقت ایک بڑے آئس پلانٹ و فش فیکٹری کا مالک ھوں ۔جو یقیناًمیں نے کئی سالوں کی انتھک محنت اور ٹھکیداری کے پیسوں سے بنائی ھے ۔جس کی ابتداء میں نے ایک چھوٹے سے آئس پلانٹ سے کردی ،جسکی ذمہ داری بڑی کشتیوں کو برف کی فراھمی تھی۔لیکن جلد ھی میں نے اسی کے اندر ایک فش فریزنگ پلانٹ کی بھی بنیاد رکھ دی۔جس کے لئے مچھلیوں کی وافر مقدار کی ضرورت پڑتی تھی ۔جس کے لئے ابتدائی کچھ مہینوں تک میں کافی پریشان بھی رھا۔لیکن پھر میرے برف کے پرانے گاھکوں اور ان کے توسط سے چھوٹی کشتیوں کے مچھیروں سے جو ایک تعلق بنا۔تو میں نے اپنا زیادہ تر وقت اسی بزنس کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے وقف کردیا ۔تو میں نے چند ھی سالوں میں شہر میں دوسری دو پرانی فش فیکٹریوں کے باوجود اپنے کچھ پرانے سیاسی و کاروباری دوستوں کے تعاون سے اس کاروبار کو ایک بہترین انداز سے آگے بڑھایا اور کچھ ھی سالوں میں فیکٹری سے ملحق اراضیات بھی خرید کر اسکے ساتھ شامل کردیئے۔

میری بنیادی شہرت ایک سیاستدان کی تھی لیکن اب ایک کامیاب فش بزںس مین کے طور پر بھی میرا کافی نام اور شہرہ ھے۔جسکی وجہ سے میرے کچھ سیاسی مخالفین اور حاسدین،میری فش فیکٹری میں نوجوان لڑکوں کی متواتر اور باربار کی تبدیلی کو ایک بے جا الزام میں لپیٹ کر شاید اپنے دل کی تسکین کرناچاھتے ھیں۔اسی بات کو لے کر وہ مجھ پر اپنے فش فیکٹری کے نوجوان کارندوں اور ورکرز کے ساتھ جنسی تعلقات استوار رکھنے کا بے بنیاد الزام بھی لگاتے ھیں۔جس میں رتی بھر بھی سچائی نہیں۔کیونکہ یہ ساری باتیں میرے پیٹھ پیچھے ھوتی ھیں اور میرا انہیں چیلنج ھوتا ںےکہ اگر ان کی باتوں میں تھوڑی بہت بھی سچائی ھے تو وہ جرات کرکے میرے سامنے آکر بات کریں تو مانوں۔

ویسے اگر حقیقت کی بات کروں تو البتہ کئی سال پہلے میرے خود کے ساتھ ایک جنسی واردات ھوئی تھی ۔جس کا تزکرہ میں نے اپنے کچھ رازدار دوستوں کے سامنے بھی کیا تھا اور شاید اسی بات کو جواز بناکر مجھ پر اس طرح کے بے جا الزمات لگاتے ھیں۔لیکن اس میں تو میں نے خود جنسی فعل کیا تھا،جبکہ اب جو میرے اوپر الزام ھے وہ یہ کہ اب میری اپنی منشا و مرضی کے ساتھ دوسرے میرے ساتھ جنسی فعل روا رکھتے ھیں۔تو چلیں پہلے اپنی جوانی کے دنوں کے اس جنسی فعل کا تزکرہ کرتے ھیں ۔جس سے یہ بات خود ھی واضح ھوجائے گی کہ اس الزام میں کتنی صداقت ھے۔ھوا یوں کہ میرے ساتھ صدر سے ملیر جاتے ھوئے بس کے اندر ،اس بزرگ شخص نے جو ایک جنسی واردات کی ابتدا کی ،تو اس نے پہلے تو مجھے حواس باختہ کردیا۔لیکن ان دنوں شباب کا زور تھا۔پر جوش جوانی تھی اور پھر جوانی کامنہ زور گھوڈا بھی کافی دنوں سے فقط بھاگ دوڈ ھی کررہا تھا۔اسے ابھی تک نہ تو صیحح ڈھنگ سےآرام ملا تھا۔نہ ھی جل اور نہ اسکی مرغوب غذا۔تو وہ کیسے اس واردات کی انجام دھی کے لئے راضی نہیں ھوتا ۔شاید آپ میں سے بیشتر لوگ میری اس بزرگ سے کئے گئے جنسی فعل کو کراہیت سے دیکھیں۔

مجھ پر تو تو کریں۔ ۔ شدید قسم کی نفرت کا اظہارکریں۔مجھ سے قطع تعلق کردیں ۔لیکن مجھے یقین ھے کہ اس دنیا میں ایک شخص ایسا ھے جو نہ صرف میرے اس فعل کی حمایت کرتا ھے ۔بلکہ اگر شاباشی شاید نہ دے ۔لیکن مجھ سے ھمدردی کے بول ضرور بول دیتا ھے ۔وہ میرا ھمزاد ھے۔کیونکہ وہ اس فعل کا چشم دید گواہ بھی ھے۔تو کیا وہ صرف گواہ ھی رھا!! ۔وہ خود اس فعل میں حصہ دار نہیں بنا۔!!شاید بنا ھو،لیکن اس تمام قصے کو سمجھنے کے لئے پہلے اس ساری فلم کو ایک بار پھر سے دیکھنا ھوگا،پھر پوری صورتحال واضح ھوسکے گی۔

وہ‌ایک ایسا ھی معمول کا دن تھا ،جب میں لُنڈا بازار سے کچھ پرانے شرٹس اور دو جینز کے پینٹس کی شاپنگ کرکے ،صدر آیا تاکہ وھاں سے لوکل بس کرکے ملیر اپنے رشتہ داروں کے گھر چلا جاوں۔جن کے ھاں میں ٹہرا ھواتھا۔لیکن ھفتے کا آخری دن ھونے کے سبب بسوں میں کافی بھیڑ تھی۔جو بھی بس آتا ۔وہ لوگوں سے کچھا کچ بھرا ھوا ھوتا اور میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی خالی بس آئے تو سیٹ پر بیٹھ کر سکون سےاپنی منزل تک جاسکوں۔کیونکہ ملیر کا سفرکافی لمبا تھا اور کھڑے کھڑے سفر کرنے سے بندہ تھک جاتا تھا۔پھر گرمی بھی اج کچھ زیادہ ھی تھی۔لیکن لگتا تھا کہ آج کوئی بس خالی نہیں ملنی۔مجھے جب کھڑے کھڑے کافی دیر ھوگئ تو میں بیزار ھوکر ایک نسبتاً بہتر بس میں جا گھسا ۔جس میں سیٹ تو نہیں مل سکی ۔ لیکن کھڑے ھونے کی جگہ مل گئی اور میں نے چھت پر لٹکی ھینگر پکڑی اور اپنے لئے تھوڑا بہتر جگہ بناکر کھڑا ھوگیا۔لیکن اگلے اسٹاپ پر جو نئے مسافروں کا ایک ھجوم داخل ھواتو ھمیں اور آگے دھکیل دیا گیا۔میری کوشش تھی کہ اپنے کھڑے ھونے کی جگہ کسی سیٹ سے نزدیک رکھوں اور اس میں میں کامیاب بھی تھا۔

اس دن بس میں گھٹن اور گرمی کی وجہ سے مجھے کافی پریشانی ھورہی تھی اور میں حسرت سے ان خوش قسمت مسافروں کو دیکھ رہا تھا جو سیٹوں پر براجمان تھے۔کہ اچانک ان میں ایک مہربان اور شفیق انسان کا مسکراتا ھوا چہرہ دکھائی دیا۔جسے شاید میں دوسری دفعہ نظر انداز کردیتا لیکن اس نے پہلی دفعہ ھی نظروں کے چار ھونے سے ایک ایسا اشارہ کیا کہ میں سمجھ گیا کہ اسکے ساتھ والی سیٹ اگلے اسٹاپ تک خالی ھوجائے گی۔اس کے ھاتھ کے اشارہ کرنے پر میں اسکی سیٹ کے ساتھ چمٹ کر کھڑا ھوگیا اور جونہی وہ آدمی اگلے اسٹاپ پر اترا۔میں ایک طرح سے اڑتا ھوا اس سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی تشکر آمیز نظروں سے اس بزرگ شخص کی طرف دیکھنے لگا۔جو اپنی مہندی لگی چھوٹی داڈھی ،سفید رنگ کی کپڑے کی کلاہ اور سفید براق شلوار قمیض میں مجھے ایک فرشتے کی طرح لگا۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔اپنا تعارف کرایا اور لگا اس سے خوش گپیاں لگانے۔اس نے مجھے پان کی پیشکش کی جو میں نے شکریہ کہہ کر معذرت کی۔پھر میں نے اس کے پوچھنے پر اپنی پڑھائی اور بدحالی بھی بتادی۔تب اچانک میں نے محسوس کیا۔کہ اسکا داھنا ھاتھ میرے بائیں ٹانگ کو سہلانے لگاھے،تو ایک دفعہ میں تھوڈا گھبراسا گیا کہ پتہ نہیں ،وہ کس نیت سے ایسا کررہا ھے۔لیکن جب وہ ہاتھ آگے میرے جینز کی زپ کی طرف آیا تو میں ھکا بکا رہ گیا۔

,,یہ کیا حرکت ھے بڑے میاں۔،،
,,کچھ نہیں ،خاموشی سے بیٹھو،اسکا تمہیں معاوضہ دوں گا۔،، میں خاموش ھوکر بیٹھ گیا ۔وہ اپنا کھیل کھیلتا رھا۔اس دوران ھمارے درمیان سرگوشیوں میں ایک زبانی سمجھوتہ بھی ھوگیا کہ یہ کھیل ھرھفتے رچایا جائے گا۔آج اسکا ابتدائی میچ ھوگا اور اس کے بدلے مجھے ایک مخصوص رقم ملا کرے گی ۔معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ کوئی پیشہ ور نہیں تھا۔اسے یہ کام اپنی مردانہ کمزوری کو بحال کرنے کے لئے کروانا ضروری ھوگیا تھا اور میں بلا چون چرا اور خاموشی سے یہ کام کرنے کے لئے راضی ھوگیا۔

یوں میں نے بادل نخواستہ اپنی غربت اور حالات کی وجہ سے اس معاھدے پر حامی بھری اور پھر ھمارے درمیان دوسال تک یہ کھیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رھا۔جس کی وجہ سے میری گریجوئشن بھی مکمل ھوگئی۔اس دوران میں اپنی برادری کی طلبہ سیاست میں کافی متحرک رھا اور تنظیم کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رھا۔جس سے میری مرکزی قیادت سے بھی خاصی جان پہچان ھوگئی ۔ اگلے سال ھماری تنظیم نے اپنا یوتھ ونگ بھی قائم کرلیا اور اس سے اگلے سال اپنی پرانی جلاو گھیراو والی سیاست چھوڑکر پارلیمانی سیاست میں بھی کود گیا۔جس سے وہ تنظیم دو مختلف الخیال دھڑوں میں بٹ گئی ۔جس میں سے ایک دھڑے نے اپنی پرانی روش برقرار رکھی۔جبکہ دوسرا دھڑا اس وقت کے سرداروں کی حمایت سے پارلیمنٹ میں جاکر وزارتوں کے مزے لوٹنے لگا۔تو اس سے مجھے بھی کافی فائدہ ملا اور میں نے سرکاری نوکری کی بجائے ٹھیکداری شروع کی ۔ایک چھوٹی دکان کھولی اور پھر اس کام میں ھاتھ ڈالا۔جو ایک ساحلی شہر کی ضرورت تھی اور ویسے بھی یہ اب ایک ترقی پزیر شہر بننے جارہا تھا۔تو بیرون شہر سے آئے لوگوں کی ایک ضرورت اچھے اور صاف ستھرے سی فوڈ کی بھی تھی ۔جہاں انہیں صاف ستھرا،تازی اور صحت بخش سی فوڈ میسر ھو۔پھر ساتھ ھی دوسرے شہروں کے لئے کولنگ کنٹینر سے سی فوڈ بھیجنا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں تھا جو میں نے بحسن و خوبی انجام دیا۔

اس طرح جو ایک اچھے اور پہترین فش بزنس کے خواب کو اچھی تعبیر ملنے لگی ۔تو چند ھی سالوں کے اندر میرا یہ بزنس پھل پھول کر خوب چمکنے بھی لگا۔

تمیں نے جو ا یک چھوٹی سی قطعہ اراضی ایک چھوٹے سے آئس فیکٹری کے لئے خریدلی تھی ۔پہلے اسکے بزنس کو خوب خوب پھیلایا اور پھر اسکے ساتھ جڑی اراضیات بھی خریدکرآئس فیکٹری کے ساتھ ایک جدید اور شاندار فش فیکٹری کا بھی آغاز کردیا۔لیکن میں نے کامیابی کے لئے معیار پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔اسکے لئے چاھے مجھے کافی دور سے ٹینکروں کی صورت میں پانی خریداری کرنا پڑا ھو،یا بہترین اے گریڈ سی فوڈ کے لئے مہنگی خریداری ۔جس کے لئے مجھے ھمیشہ متحرک ،محنتی اور نوجوان اسٹاف کی ضرورت رھی اور ان میں سے جو بھی اچھا بزنس نہیں لاسکا ۔اسے میں تبدیل کرتا رھا۔جس کی وجہ سے کئی بار ھر مہینے اسٹاف کی تبدیلیاں بھی ھوتی رہیں اور اب بھی ھوتی ھیں۔لیکن مخالفین یہی الزام لگاتے ھیں کہ ان اسٹاف کے مجھ سے جنسی تعلقات استوار نہ رکھنے کے سبب سزا کے طور پر انہیں اپنی نوکری سے ھاتھ دھونے پڑے۔جس کی بابت ابھی کچھ دنوں سے وہ یہ بھی کہتے سنے گئے ھیں کہ اب ان کے پاس اس سلسلے میں ثبوت بھی ھیں جو ان متاٹرین کی صورت میں ھیں ،جنہیں بقول ان کے میں نے زبردستی اپنے ساتھ ,,جنسی کام،،کام کرنے کے لئے مجبور کیا تھا۔جس سے مجھے اب کافی ھنسی بھی آتی ھے کیونکہ وہ ایسی بات کرنے لگے ھیں ۔جیسے میں نارمل انسان نہیں ایک خسرہ ھوں۔

لیکن ایک بات ھے ،مجھے کافی عرصے سے کچھ عجیب غریب قسم کے خواب بھی آتےھیں جن کی وجہ سے میں بے قابو ھوکرایسی حرکتیں کرنے لگتا ھوں کہ مجھے اسکی خود بھی اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ میں ایسا کیوں کرتا ھوں۔جسکی ابتدا پچھواڈے میں خارش سے ھوتی ھے اور پھر وہ خارش نما کجھلی دماغ سے ھوتی ھوئی پورے بدن میں پھیل جاتی ھے اور میں اپنے ھوش و خرد سے بیگانہ ھوکر پتہ نہیں لوگوں سے کیا کچھ کرواتا ھوں ۔اللہ ھی جانے