افسانہ جامن کا پیڑ کا خلاصہ

0

افسانہ جامن کا پیڑ کا خلاصہ

رات بڑے زور کا جھکڑ چلا اور سیکرٹریٹ کے لان میں لگا ہوا جامن کا پیڑ گر گیا۔ صبح مالی نے دیکھا کہ درخت گرا پڑا ہے اور اس کے نیچے ایک آدمی دبا ہوا ہے جو زندہ ہے۔ مالی دوڑ کر چپراسی کے پاس گیا۔ چپراسی سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ سپرنٹنڈنٹ لان میں آیا۔ تب تک وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔

لوگ جامن کے درخت کی تعریفیں اور اس کی مٹھاس بارے گفتگو کرتے ہوئے اس کے گرنے پر افسردہ ہیں۔ مالی نے کہا کہ نیچے آدمی دبا پڑا ہے کوئی اس کی خبر بھی لے۔ اب بحث شروع ہو گئی کہ بندہ مر گیا ہے یا زندہ ہے۔ نیچے دبا ہوا آدمی بمشکل بتاتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ اب درخت کو اٹھانے پر بے مقصد گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ بالآخر سب مل کر اس درخت کو اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن سپرنٹنڈنٹ کہتا ہے:

میں پہلے انڈر سیکرٹری سے مشورہ کر لوں۔ انڈر سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری کے پاس جاتا ہے‘ وہ جوائنٹ سیکرٹری کے پاس جاتا ہے جو بھاگ کر چیف سیکرٹری کو رپورٹ کرتا ہے۔ چیف سیکرٹری اپنے جوائنٹ سیکرٹری کو کچھ کہتا ہے۔ وہ آگے ڈپٹی سیکرٹری اور وہ انڈر سیکرٹری کو ہدایات دیتا ہے۔ فائل تیار ہوکر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتی رہتی ہے۔ آدھا دن گزر جاتا ہے۔

لوگ درخت کو ہٹا کر نیچے دبے ہوئے شخص کو نکالنا چاہتے ہیں، لیکن اسی دوران سپرنٹنڈنٹ فائل لیکر بھاگا بھاگا آتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ ہمارا محکمہ تجارت ہے جبکہ یہ درخت محکمہ زراعت کی ملکیت ہے۔ ہم اس فائل کو ارجنٹ مارک کرکے محکمہ زراعت کو بھجوا رہے ہیں۔

دوسرے دن محکمہ زراعت سے جواب آ جاتا ہے کہ درخت محکمہ تجارت کے لان میں گرا ہے لہٰذا یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ محکمہ تجارت نے جواباً لکھا کہ درخت کو ہٹانے کی ذمہ داری محکمہ زراعت کی ہی ہے۔ سارا دن فائل چلتی رہی‘ شام کو جواب آیا‘ معاملہ چونکہ پھلدار درخت کا ہے اس لیے محکمہ ہارٹیکلچر (Horticulture) کو مطلع کر دیا گیا ہے۔

ہارٹیکلچر کے سیکرٹری نے لکھا کہ ہم درخت لگانے پر مامور ہیں اس لیے درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ درخت کے نیچے دبے ہوئے آدمی کو کاٹ کر نکال لیا جائے۔ آدمی کہتا ہے کہ اس طرح تو وہ مر جائے گا۔ اب اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ فائل کمنٹس کیلئے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دی جاتی ہے۔ وہ فوراً ایکشن لیتے ہیں اور دوسرے ایک قابل پلاسٹک سرجن کو بھیج دیتے ہیں۔ وہ دبے ہوئے آدمی کے سارے ٹیسٹ کرکے بتاتا ہے کہ اس کا آپریشن تو ہو سکتا ہے اور آپریشن کامیاب بھی ہو جائے گا مگر آدمی مر جائے گا۔

گزشتہ دو راتوں کی مانند اس رات بھی مالی نے آدمی کو کھانا کھلایا اور اسے تسلی دی کہ تمہاری فائل چل رہی ہے اور معاملہ بہت اوپر چلا گیا ہے۔ کل سارے سیکرٹریز کی میٹنگ ہے کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور ہو جائے گا۔ دبا ہوا آدمی آہ بھر کر آہستہ سے کہتا ہے:
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مالی پوچھتا ہے: کیا تم شاعر ہو؟ آدمی کہتا ہے: ہاں۔ صبح مالی نے چپراسی کو بتایا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے۔ چپراسی نے اپنے کلرک کو بتایا۔ پہلے یہ بات سارے سیکرٹریٹ میں پھیلی، پھر یہ خبر شہر پہنچ جاتی ہے۔ اگلے روز لان شاعروں سے بھر جاتا ہے۔ رات وہاں مشاعرہ برپا ہوتا ہے اور اس کی فائل کلچرل ڈیپارٹمنٹ میں بھجوا دی جاتی ہے جہاں یہ آخرکار سیکرٹری کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے پاس پہنچتی ہے۔ وہ شاعر کے پاس آ کر پوچھتا ہے کہ کیا وہ ان کی اکادمی کا ممبر ہے؟ انکار سن کر سیکرٹری کہتا ہے کہ میں کوئی بندوبست کرتا ہوں۔

اگلے دن سیکرٹری اس آدمی کو بتاتا ہے کہ اس کی اکادمی کی ممبرشپ منظور ہو گئی ہے اور یہ رہا منظوری کا لیٹر۔ آدمی کہتا ہے کہ مجھے نیچے سے کب نکالا جائے گا، جواب ملتا ہے کہ ہم یہی کچھ کر سکتے تھے‘ درخت اٹھوانا ہماری ذمہ داری نہیں‘ اگر تم مر گئے تو تمہاری بیوہ کا وظیفہ لگا دیا جائے گا‘ ویسے ہم نے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کو لکھ دیا ہے‘ کل تک کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ اگلے روز اسے کاٹنے کا حکم آتا ہے تو محکمہ خارجہ والے بتاتے ہیں کہ یہ درخت ایک سربراہ مملکت نے لگایا تھا‘ اگر اسے کاٹا گیا تو اس ملک سے خارجہ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ برقت تمام اگلے روز وزیراعظم سے منظوری کے بعد جب فائل واپس آتی ہے تب تک وہ شخص مر چکا ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔