جنت کی تلاش

0

“جنت کی تلاش ” اردو زبان کا پہلا ناول ہے جس میں وہ گہری اور گمبیھر الجھنیں موضوع بنی ہیں۔ جنھوں نے صدیوں سے بڑے بڑے حکیموں ، داناؤں اور دانشوروں کو جستجوۓ مسلسل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ اس ناول میں کہا گيا ہے۔ وہ مصنف رحیم گل کے برسوں کے وسیع مطالعے اور گہری سوچ کا نتیجہ ہے، مگر کسی ایک مقام پر بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ناول نگار نے جو کچھ پڑھا یا سوچا ہے، اسے جا بے جا اگلتا چلا جا رہا ہے۔

اس نے حیرت انگیز فن کاری اور مسحور کن سلیقے سے ان افکار کو ناول کے تین مرکزی کرداروں۔ ۔۔ ۔ ۔امتل، وسیم اور عاطف میں بانٹا ہے۔ اور ان کے مکالموں کے تانے بانے سے قاری پر کتنے بہت سے اسرار حیات و کائنات کھولتا چلا گيا ہے ۔ اس بہت بڑے اور پھیلے ہوۓ موضوع کو رحیم گل نے ایک “ماسٹر کرافٹسمین” کی طرح شروع سے آخر تک اپنی پر اعتماد گرفت میں رکھا ہے اور ایک ایسا ناول تخلیق کیا ہے جواپنے موضوع اور نوعیت اور بنت کے لحاظ سے کم سے کم اردو زبان میں تو بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔

“امتل” کا کردار اس ناول کا محور ہے یا پھر اس کی مثال اس آفتاب کی سی ہے جس کے گرد ناول کا پورا “نظام شمسی” اپنی معین رفتار اور مقررہ زاویوں سے رواں دواں ہے۔ امتل سے جس بھی نۓ کردار کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے۔ وہ اس کی شخصیت کے طلسم اور اس کے ذہن کی درا کی اور اس کے خیالات کی “پراسراریت” کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ اس “آفتاب ” کے مقابلے میں وسیم اور عاطف کی مثال آفتاب کے گرد، دائروں میں رواں سیاروں کی سی ہے کہ وہ اسی سے روشنی اور قوت اور نمو حاصل کرتے ہیں بعض اوقات وہ اس کی تمازت سے اپنے اندر آگ کے شعلے بھڑکتے ہوۓ محسوس کرتے ہیں مگر آفتاب کے گرد گردش کرتے رہنا ان کا مقدر ہے۔

اس لحاظ سے امتل ایک مثالی کردار ہے۔ یہ ایک علامت ہے اس “یوٹوپیا” کی ، جسے رحیم گل کے مزاج کی بنیادی نیکی نے تخلیق کیا ہے۔ مگر رحیم گل کا کمال یہ ہے کہ وہ اس “یوٹوپیا” کو قاری پرمسلط نہیں کرتا بلکہ اسے الہام کی طرح اس پر نازل کرتا ہے ۔ وہ خود اپنی بنائی ہوئی مثالی اقلیم کے بعض تاریک گوشوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے امکانات کے ساتھ ناممکنات کا بھی جائزہ لیتا چلا جاتا ہے اور آخر میں انسانی فطرت اور جبلت کی فتح کا پرچم اپنی روح میں، اپنے لہو میں پھڑپھڑاتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ انسانی جبلت کے ساتھ ہی ناول نگار کی فتح بھی ہے۔

میں یہاں ناول کا پلاٹ درج نہیں کروں گا، نہ فردا فردا سب اہم کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرستیں مرتب کروں گا اور نہ ناول سے اقتباسات پیش کروں گا۔ یہ میں رسمی دیباچہ نہیں لکھ رہا ہوں۔ قارئین کو اپنے ایک لطیف تجربے میں شریک کر رہا ہوں۔ ناول کا قریب قریب تین چوتھائی حصہ امتل اور دوسرے کرداروں کے درمیان مکالموں پر مشتمل ہے اور باقی حصے پر بلوچستان، کاغان، ناران، گلگت، سکردو، دیواسائی اور نلتر وغیرہ وغیرہ کے وہ مناظر چھاۓ ہوۓ ہیں جو ہمارے خوبصورت وطن کا حصہ ہیں مگر ہم نے صرف ان کی تصویریں دیکھی ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں نیو یارک، لندن، برلن، پیرس، روم، جینوا اور ماسکو وغیرہ کے بارے میں زیادہ وسیع معلومات رکھتے ہیں ، مگر ہمارے قومی کردار و مزاج کے اس پہلو کا ذکر آگے آۓ گا۔

کہانی بالکل اس رفتار سے آگے بڑھتی ہے جیسے امتل کی گفتگو آگے بڑھتی ہے۔ کہانی اور امتل کے کردار کا یہ سفر بالکل ناران کے اس گلیشیئر کا سفر ہے جسے امتل، وسیم، اور عاطف، جھیل سیف الملوک کی طرف جاتے ہوے، گرتے پڑتے عبور کرتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ گلیشیئر فراز سے نشیب کی طرف سرک رہا ہے اور “جنت کی تلاش” کے کردروں کا رخ نشیب سے فراز کی طرف ہے۔

امتل کسی ایک موضوع کی پابند نہیں ہے۔ خود مصنف بھی، وسیم کی زبانی ایک جگہ کہلواتا ہے کہ وہ کون سا موضوع تھا جو امتل کی دستبرد سے بچا ہوا تھا مگر امتل ہر موضوع کو اپنے ڈھب پر لے آتی ہے اور زندگی کی منفت اور بے معنویت کا فلسفہ پیش کرنے لگتی ہے۔ وہ انسان کے جبلی طور پر نیک ہونے پر یقین نہیں رکھتی۔ انسان اس کے نزدیک خیر کی بجاۓ شر کا نمائندہ ہے ، چنانچہ کسی بھی انسان سے کوئی امید وابستہ کرنا اسے آتا ہی نہیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کوئی نہایت گہری چوٹ کھائی ہے اور اس چوٹ کے اثرات اتنے شدید ہیں کہ اس کے نزدیک پوری انسانی جدو جہد، اس کی تہذیب اور اس کی نظریہ سازی بے معنی اور بے وقعت۔

تحریر عامر سهیل