جگر مرادآبادی کے حالات زندگی

0

جگر مراد آبادی کا نام علی سکندر اور تخلص جگرؔ تھا- جگر کی پیدائش 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں ہوئی- بچپن میں بہت چھوٹی عمر میں ہی جگر مراد آبادی کے والد کا انتقال ہوگیا- اس وجہ سے اپنے بچپن میں انہیں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا-

جگر نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی۔ انہوں نے عربی٬ اردو اور فارسی سیکھی- ان کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے- جگر مراد آبادی ایسے شخص ہیں جنہوں نے شاعری میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے- جب بھی مشاعرے کا نام لیا جاتا ہے جگر کا نام ضرور آتا ہے۔

جگر مراد آبادی نے بہت چھوٹی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا- تقریباً 12-13 سال کی عمر میں شاعری کے بہت زیادہ شوقین ہو گئے تھے- اور 15 سال کی عمر میں شراب کی عادت بھی اختیار کرلی-  لیکن جب عمر بڑھنے لگی تو اصغر گونڈوی کے کہنے پر یہ عادت چھوڑ دی- ان کی شاعری کے جذبہ کو اضغر گونڈوی نے بہت زیادہ بڑھاوا دیا- اور یہ جگر مراد آبادی کو اپنے قریب مانتے تھے- 9 دسمبر کو 1960ء میں گونڈہ میں آپ کا انتقال ہو گیا-

گونڈہ کے ایک کالونی جس کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے- جسے “جگر گنج” کہتے ہیں- اور وہاں کے ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر رکھا گیا ہے جس کا نام جگر میموریل انٹر کالج ہے-

 جگر جس بھی مشاعرے میں جاتے اس مشاعرے کی رونق بن جاتے تھے- جگر ہر مشاعرے کی شان کہلاتے تھے- ان نے ساری زندگی غزل گوئی کی ہے- حالانکہ انہوں نے کچھ نظمیں بھی لکھی ہیں مگر ان پر بھی غزل کا رنگ نظر آتا ہے- 

جگر کی شاعری کا موضوع عشق و محبت اور حسن ہے- ان کی شاعری عشق پر ہی شروع ہوتی ہے اور عشق پر ختم ہوجاتی ہے- شعر ملاخطہ ہوں- 

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے 
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر کا پہلا مجموعہ ۶1922  میں “داغ جگر” اور ۶1932 میں دوسرا مجموعہ “شعلہ طور” اور تیسرا 1958ء میں “آتشِ گل” بہت زیادہ مشہور ہوئے۔

جگر کو نعتیہ مشاعرہ بھی لکھنے کا موقع ملا شروع میں تو انہوں نے انکار کر دیا تھا- ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک برے انسان ہیں- شراب جیسی بری چیز ان کے اندر بسی ہے- وہ اپنے آقا کی نعت لکھنے کے قابل نہیں ہیں-لیکن پھر انہوں نے لکھنا شروع کیا اور شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا- جب ان کا نعتیہ مشاعرہ پورا ہوگیا تو یہ بے حد خوش ہوئے اور کہنے لگے۔ ہو سکتا ہے اب میرے گناہ کم ہو جائیں- لوگ ان کے نعتیہ مشاعرے کو پڑھنے کے خلاف تھے- اور جب یہ مشاعرے میں پہنچے اور لوگوں کی نظریں دیکھیں تو سہمے ہوئے دل سے یہ شعر نکلا٬ شعر ملاحظہ ہوں-

ایک رندے اور مدحت سلطان مدینہ 
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

یہ شعر سن کر لوگوں کا غصہ ختم ہوگیا اور سب خاموش رہ گئے-

ان کے شعروں سے جو آہ نکلی وہ لوگوں کے دل میں اتر گئی اور یہ پورے مشاعرے میں چھا گئے اور زندگی بھر کے لئے اپنا مقام بنا گئے۔

جگر ایک ایسے شاعر ہیں جن کی موت کی خبر ان کی زندگی میں دو بار اڑی۔جگر اپنے زمانے تک کے پہلے اردو شاعر تھے جنھیں پدم بھوشن کا خطاب ملا تھا۔اس کے علاوہ ان کے تیسرے مجموعہ “آتش گل” کے انجمن ترقی اردو ہند کے 1958 آڈیشن پر ساہتیہ اکیڈمی کے انعام سے بھی نوازا گیا تھا.

Quiz On Jigar Moradabadi

جگر مرادآبادی کے حالات زندگی 1