حدیث کی تعریف، حدیث یا سنت کی شرعی حیثیت

0
  • سبق نمبر 31:

سوال۱: تعارف حدیث پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

جواب: لفظ حدیث سے بنا ہے جس کے معنی کسی نئے معاملہ کو بیان کرنے کے ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ پیش آنے والے نئے حالات پر اظہار خیال کرنا حدیث ہے۔ اس کے علاوہ قبل اسلام کے مشہور واقعات کو بھی حدیث کہا جاتا ہے۔ مثلاً”صارااحدوثہ“ یعنی یہ بات مشہور ہے واقعہ اور ضرب المثل ہے علاوہ ازیں حدیث کے لفط کو بعض محققین نے نئے حالت اور جدید واقعات کے لئے بھی بیان کیا ہے اس لحاظ سے قرآن قدیم ہے اور حدیث کو جدید سمجھا جاتا ہے۔

اصطلاح اسلام میں حدیث کے معنی قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جاتے ہیں جو قرآن حکیم کی تفسیر توضیح اور احکام باری تعالیٰ کے بیان سے مراد ہے۔

خودرسول اللہﷺ نے اپنے ارشاد کو حدیث فرمایا روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جو قیامت میں شفاعت کے مستحق ہوں گے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم تھا کہ اس حدیث کے بارے میں ابوہریرہؓ ہی مجھ سے پوچھیں گے کیونکہ وہ طلب حدیث کے سب سے زیادہ حریص ہیں۔

فقہا حدیث کے بارے میں انت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اگرچہ سنت سے عموماً مراد عمل رسول اللہﷺ ہوتا ہے مگر عمل رسول ﷺ کے عمل کا بیان بھی جب الفاظ ذریعہ کیا جائے گویا وہ سنت ہے۔

احکام اسلامی کا سب سے پہلا ماخذ جہاں سے حکم لیا جائے گا۔ اب اللہ یعنی کلام مجید اور دوسرا اماخذ سنت رسول ﷺ ہے جو قرآن کی توضیح و تفسیر ہے کیونکہ احکام قرآنی مجمل اور جامع ہوتے ہیں پھر ان کی وضاحت اور جذئیات کو رسول اللہﷺ اپنے ارشادات سے امت کو سمجھائے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ کو اس کا پابند کیا ہے اور اس کے منصب میں یہ بات واضح فرمائی ہے ۔”کہ اے رسولﷺ آپ لوگوں کو وضاحت کے ساتھ بتا دیں جو اللہ نے آپﷺ پر نازل کیا ہے۔“ اس لئے کبھی حضور ﷺ نے اپنے قول اور ارشادات سے اور کبھی کسی حکم کو اپنے عمل کے ذریعہ امت کے سامنے کھلے طور پر ظاہر فرمادیا۔

جہاں آپﷺ کے قول اور حدیث نبویﷺ کا تعلق ہے تو اس میں اللہ کی طرف سے دنیا کے انسانوں کو واضح طور پر بتا دیا کہ رسولﷺ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتا بلکہ جب ہم اس پر وحی کے ذریعہ کوئی بات پہنچاتے ہیں تو وہ اس وحی کو تم تک پہنچا دیتا ہے۔ اس لئے وحی کے ذریعہ ہم پر کلام نازل فرمانے والا اللہ حدیث و سنت رسول اللہﷺ کو تسلیم کرنے کے لئے وہی مقام دیتا ہے جو قرآن کو حاصل ہے ہم اس پر غور کریں تو بات کھل کر سامنے آجائے کہ قرآن کی توضیح اور حقیقی تفسیروہی ہے جو حضورﷺ نے اپنی احادیث یا سنت کے ذریعہ فرمائی یہی وجہ ہے کہ محققین اسلام اور علماء کرام نے وحی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔

وحی متلو:

جس سے مراد احکام باری تعالیٰ کا کلام ربانی کے ذریعہ نازل ہونا مثلا قرآن۔

وحی غیر متلو:

اس سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ ےتعالیٰ نے قلب رسول اللہﷺ پر نازل فرمائے اور جنہیں حضورﷺ پر نازل فرمائے اور جنہیں حضورﷺ نے اپنے الفاظ یا عمل کے ذریعہ امت تک پہنچائے۔ مذکورہ جوابوں سے ظاہر ہے کہ جس طرح قرآنی احکام کی تعمیل امت پر فرض کردی گئی۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کے احکام کی تعمیل لازم کر دی گئی حکم قرآنی ہے:
یعنی اور رسولﷺ تم سے جو کہے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔ (سورۂ الحشر:۷)

اس کےعلاوہ کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی کہ حکم رسول اللہﷺ کی اطاعت واجب ہے مثلاً:
یعنی: ہم نے جو رسولﷺ بھی بھیجا ہے وہ اسی لئے کہ اذن الہیٰ سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (النساء:۶۴)

سوال۲: حدیث و سنت پر عمل کرنے کا حکم بیان کریں۔

جواب: ہر رسول صرف اس لئے بھیجا گیا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب اطاعت اور اتباع کے لئے واجب قرار دی گئی آپ دیکھیں کہ بہت سے انبیاء کتاب کے بغیر بھی مبعوث کئے گئے مگر کوئی کتاب بغیر نبی کے نازل نہیں فرمائی گئی اور نبی خواہ اس پر کتاب نازل کی گئی ہو یا بغیر کتاب کے اس کی بعثت ہوئی ہو واجب اطاعت ہوتا ہے اس حقیقت کو سامنے رکھ کر جتنے لوگ رسول ﷺ کی رسالت کی تصدیق کریں گے ان پر آپﷺ کی اطاعت واجب ہو جائے گی پھراس کے لئے اطاعت کا لفظ استعمال کیا جائے یا حدیث و سنت پر عمل کیا جائے دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے قرآن حکیم نے کیسے فصیح اور واضح انداز میں فرمایا:
ترجمہ: ”(اے نبیﷺ) کہہ دیجئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کروتب اللہ تمہیں اپنی محبت سے نوازے گا۔“اس آیت سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ اطاعت کی واحد شکل اتباع رسول یعنی سنت رسولﷺ کی پیروی ہے۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ صرف یہی نہیں کہ قرآن کی نافرمانی اور معصیت(گناہ) کو ضلالت (خطا) اور گمراہی قرار یا اور ایسا کرنے والوں کو سزا اور عذاب کی دھمکی دی بلکہ اسی طرح معصیت(گناہ) رسولﷺ کی ضلات(خطا) اور گمراہی قرار دیا اور ایسا کرنے والوں کو سزا اور عذاب کا مستحق ٹھہرایا قرآن کہتا ہے۔
ترجمہ: جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (الاحزاب:۳۶)

اس مضمون کی بہت سی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اللہ کی معصیت اور نافرمانی کی طرح رسول اللہﷺ کی معصیت اور نافرمانی کو بھی کھلی گمراہی اور سزاکا مستوجب قرار دیا۔

سوال۳:سنت کے معنی بیان کریں۔

جواب: سنت کے لفظی معنی طریقے اور راستے کے ہیں خواہ اچھا ہو یا برا۔ اصطلاح شریعت میں سنت رسول کے معنی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے اختیار کردہ اور ہدایت کردہ طریقے کے ہیں۔ جمہور محدثین کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے جملہ اقوال، افعال، تقریرات آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کے اخلاق جلیلہ ، مغازی حتی کہ بخت سے قبل کے احوال بھی سنت کے ضمن میں آتے ہیں۔

سوال۳:حدیث وسنت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:حدیث یا سنت کی شرعی حیثیت

شریعت اسلامی کی چار بنیادی ماخذ کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم ، اجماع اور قیاس ہیں۔ ان میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کو دوسرا بنیادی مقام حاصل ہے۔ حدیث ” وحی ” کی وہ قسم ہے جو اللہ تعالی نے الفاظ وعبارات کے بغیر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمائی۔ اس امر پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کی پیروی واجب اور خلاف ورزی حرام ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار نصوص و آیات وار ہوئی ہیں۔ یہاں اختصار کی غرض سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔